پاکستان سپر لیگ 2019: وہی ٹیمیں ،وہی کھلاڑی اور وہی فنکار، کیا کچھ نیا بھی ہے...؟

عام تاثر یہ ہے کہ تین سال گزرنے کے بعد پاکستان سپرلیگ کی چمک دمک ایک مقام پر آ کر ٹھہرگئی ہے
پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن کا آغاز 14 فروری کو ہورہا ہے۔ یہ لیگ اپنے آغاز سے ہی شائقین کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے۔

پی ایس ایل کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ ہے جو دنیا بھر میں مقبول ہے اور متعدد ممالک میں فرنچائز کرکٹ اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔

شائقین کی اس فارمیٹ میں غیرمعمولی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ جیسے روایت پسند کرکٹ ملک کو بھی اپنے کاؤنٹی سیزن میں ٹی ٹوئنٹی ایونٹ کو متعارف کروانا پڑا۔
پاکستان سپر لیگ کی مقبولیت کی ایک اور بڑی وجہ اس میں غیرملکی کرکٹرز کی شرکت بھی ہے۔ اگرچہ اس میں آئی پی ایل کے مقابلے کے مشہور کھلاڑی نظر نہیں آتے لیکن اس کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ اس مرتبہ کھلاڑیوں کے مصروف بین الاقوامی شیڈول کے باوجود متعدد بڑے ناموں کو پی ایس ایل میں لانے میں کامیاب رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے
’قومی کوچ کو فرنچائز کا کوچ نہیں ہونا چاہیے‘

پی ایس ایل اور آئی پی ایل کا مقابلہ کیا ممکن ہے؟

اکثر لوگ پاکستان سپر لیگ کا دوسری فرنچائز لیگز خاص کر آئی پی ایل سے موازنہ کرتے ہیں، جو کہ درست نہیں۔

پی ایس ایل کا مالی حجم آئی پی ایل سے بہت کم ہے جس کا بنیادی سبب انڈین کرکٹ کا مضبوط معاشی نظام ہے۔ آئی پی ایل میں جتنا پیسہ نشریاتی حقوق اور سپانسرشپ کے ذریعے کمایا جاتا ہے اتنا پیسہ دنیا کی کسی دوسری لیگ میں نہیں کمایا جاتا۔
پاکستان سپر لیگ کی مقبولیت کی ایک اور بڑی وجہ اس میں غیرملکی کرکٹرز کی شرکت بھی ہے
اب عام تاثر یہ ہے کہ تین سال گزرنے کے بعد پاکستان سپرلیگ کی چمک دمک ایک مقام پر آ کر ٹھہر گئی ہے۔ افتتاحی تقریب میں بھی وہی ٹیمیں، وہی کھلاڑی اور وہی فنکار نظر آئیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ کے لیے اس میں کچھ نیا کرنے کے لیے باقی نہیں رہا۔

گذشتہ سال پاکستان سپر لیگ کے دوران دبئی سٹیڈیم شائقین سے مکمل طور پر نہیں بھر سکا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ پہلے ہم تھوڑی بہت مفت ٹکٹیں دے دیتے تھے لیکن متحدہ عرب امارات میں نئے ٹیکس کے نفاذ کے سبب یہ اب ممکن نہیں رہا اور مقامی قوانین کے تحت دس فیصد سے زیادہ مفت ٹکٹیں نہیں دی جا سکتیں۔

نجم سیٹھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایجنٹس کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی لیکن مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کا سب سے بہتر حل یہی ہوسکتا ہے کہ اس لیگ کو جتنا جلد ممکن ہوسکے پاکستان لایا جائے۔

سابق کپتان اور پی ایس ایل کے برانڈ ایمبیسڈر رمیز راجہ نے بھی گذشتہ سال اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سپرلیگ کا انوکھا پن اب سپاٹ ہوتا نظر آرہا ہے اور اگر اسے دبئی اور شارجہ میں منعقد کرنا ہے تو اس کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی ہوگی کیوں کہ مقامی شائقین اب بہت زیادہ کرکٹ دیکھ کر تھک گئے ہیں۔
پشاور زلمی کے سربراہ جاوید آفریدی کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل نے پاکستان کی کرکٹ کو اس وقت سہارا دیا جب وہ انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم تھی
پاکستان سپر لیگ کے پاکستان میں نہ ہونے کے سبب فرنچائز مالکان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو بے پناہ اخراجات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ابھی تک یہ لیگ ان کے لیے منافع بخش نہیں بن سکی ہے۔

پاکستان سپر لیگ میں حصہ لینے والی فرنچائز پشاور زلمی کے سربراہ جاوید آفریدی کا کہنا ہے کہ ’اس لیگ نے پاکستان کی کرکٹ کو اس وقت سہارا دیا جب وہ انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم تھی۔ پہلی لیگ کی کامیابی ہی اگلے سال پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سبب بنی۔ اس سال آٹھ میچوں کا پاکستان میں انعقاد ہونا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔‘

جاوید آفریدی کا کہنا ہے کہ ’تمام فرنچائز مالکان نے پاکستانی کرکٹ کی خاطر اس لیگ میں سرمایہ کاری کی ہے اور جیسے جیسے یہ لیگ پاکستان آئے گی ٹیکس کے معاملات میں فرنچائزز کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی جائیں گی۔ حکومت نے فرنچائز مالکان کی بات سنی ہے اور ٹیکس اصلاحات کیے ہیں جو ایک مثبت قدم ہے۔‘

دو بار پی ایس ایل جیتنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کے سربراہ علی نقوی کا کہنا ہے کہ ’پچھلے تین برسوں کے دوران سب نے اس لیگ کو کامیاب کرنے کے لیے ان تھک محنت کی ہے اب کوشش اس بات کی ہے کہ اگر اس لیگ سے کسی کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا تو نقصان بھی زیادہ نہ ہو۔‘
msfsocial.com