قصور: درخت سے لٹکتی دو لاشیں، خود کشی یا قتل۔۔۔؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں پولیس نے حال ہی میں ایک مرد اور نوجوان لڑکی کی درخت سے لٹکتی لاشیں دریافت کی تھیں۔ پولیس کے مطابق دونوں لاشیں جمعرات کی صبح قصور شہر کے قریب تھانہ صدر کی حدود میں بائی پاس کے قریب درخت سے لٹکتی پائی گئیں۔

دونوں کی گردنوں میں ڈلے پھندے ایک ہی رسی کے تھے اور دونوں مردہ حالت میں درخت کی ایک ہی شاخ سے ساتھ ساتھ لٹکتے ہوئے پائے گئے تھے۔ جائے وقوع پر پولیس کو لاشوں کے قریب ایک رکشہ بھی کھڑا ہوا ملا تھا۔
قتلِ غیرت اور پشتون ولی

مرد کے کپڑوں سے ملنے والے شناختی کارڈ کی مدد سے ان کی شناخت حسنین علی کے نام سے ہوئی۔ ان کا تعلق قصور کے جڑواں شہر اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے اچھرہ سے بتایا جاتا ہے۔

تاہم لڑکی کی شناخت کرنے میں پولیس کو وقت لگا۔ پولیس کے مطابق حسنین علی کی عمر 24 سال ہے جبکہ لڑکی جس کی شناخت آمنہ بی بی کے نام سے ہوئی ان کی عمر 20 برس کے لگ بھگ ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قصور ڈاکٹر شہزاد آصف خان نے بی بی سی کو بتایا کہ "موقع کے شواہد اور ابتدائی تفتیش میں جائے وقوع سے بظاہر کسی فاؤل پلے یا زبردستی کے شواہد نہیں ملے۔"

یعنی بظاہر یہ خود کشی کا واقع نظر آتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس کسی بھی امکان کو تاحال خارج از امکان قرار نہیں دے رہی۔

"پولیس کو مرنے والوں کی میڈیکل رپورٹوں کا انتظار ہے جس کے بعد ان کی اموات کی وجوہات کے حوالے سے حتمی طور پر کوئی اندازہ قائم کیا جا سکے گا۔"

پولیس کے مطابق جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کرنے کے بعد انہیں فارنزک ٹیسٹ یعنی سائنسی تجزیے کے لیے بھی بھجوا دیا گیا تھا۔ میڈیکل رپورٹ ہی کے روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔

تاہم تھانہ صدر قصور پولیس کے مطابق واقعہ کی ایف آئی آر تھانہ صدر میں درج کر لی گئی ہے جس میں نا معلوم افراد کے خلاف دونوں لڑکے اور لڑکی کے قتل کا مقدمہ درج کر کیا گیا ہے۔ مقدمہ آمنہ بی بی کے والد محمد اقبال ولد نواب دین بھٹی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

صدر پولیس کے مطابق مرنے والوں کے لواحقین نے باہمی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ مقدمہ لڑکی کے لواحقین کے مدعیت میں درج کیا جائے گا۔

آمنہ بی بی کا تعلق بنیادی طور پر ضلع قصور کے علاقے چُنیاں میں کوٹ لالے جنڈ والہ سے تھا تاہم وہ ملازمہ کے طور پر لاہور کی وحدت کالونی کے علاقے میں ایک گھر میں کام کرتی تھیں

ڈی پی او قصور کا کہنا تھا کہ پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں آمنہ بی بی کے لواحقین نے حسنین علی کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔ "ان کا کہنا تھا کہ وہ حسنین علی کو اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔"

ان کے لواحقین کے مطابق وہ ایک روز سے لا پتہ تھیں اور وہ بدھ کے روز صبح 10 بجے سے انہیں تلاش کر رہے تھے۔ تاہم ان کی گمشدگی کے حوالے سے پولیس کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔

پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق حسنین علی رکشہ چلاتے تھے اور جائے وقوع سے ملنے والا رکشہ ان ہی کا تھا۔

تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ ابتدائی بیان میں حسنین علی کی بہن نے بتایا کہ اس واقعہ سے ایک روز قبل حسنین نے ان سے آمنہ بی بی کے حوالے سے بات کی تھی۔ اس پر انہوں نے حسنین کو تنبیہہ کی تھی کہ "وہ غریب لوگ ہیں اس لیے وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے وہ مشکل میں آ جائیں۔"

تفتیشی افسر انچارج ہومی سائیڈ طاہر سہیل نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کو دونوں مرنے والوں کے لواحقین کا پتہ لگانے میں وقت لگا تھا کیونکہ دونوں کا تعلق قصور شہر سے نہیں تھا۔ اس کے بعد ان کے بیانات قلم بند کیے گئے اور مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد ان کی لاشیں پورسٹ مارٹم کے لیے بھجوائی گئیں۔

تاہم 24 گھنٹے کا وقت گزرنے کے بعد بھی پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں پورسٹ مارٹم کی نتائج کا انتظار تھا۔

ڈی پی او قصور شہزاد آصف کے مطابق پورسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ پتہ چلے گا کہ دونوں کی موت کس طرح واقع ہوئی اور کس وقت واقع ہوئی۔ اس طرح یہ پتہ لگانے میں بھی مدد ملے گی کہ ان میں سے پہلے کس کی موت واقع ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس تاحال خودکشی، قتل یا غیرت کے نام پر قتل سمیت کسی بھی امکان کو خارج قرار نہیں دے رہے۔