ہر دور میں علامہ محمد اقبال کا اقبال بلند رہاہے اور رہے گا انشااللہ

صاحب غنی شخصیت شیخ نور محمد کے گھر 9 نومبر 1877 کو ایسے بچے نے جنم لیا جس کے چرچے آج بھی ہر ایک کی زبان پر ہیں ۔والدین نے نام محمد اقبال رکھا پھر بڑا ہو کر یہ بچہ علامہ،ڈاکٹر اور بیرسٹر کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شاعر اور نفیس انسان بن کر نہ صرف اپنا ،اپنے خاندان کابلکہ پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا۔علامہ اقبال کے آباﺅ اجداد کا تعلق کشمیری برہمنوں کی اعلی ترین ذات سپرو سے تھا ۔ سپرو ذات کا یہ پہلا خاندان تھا جھنوں نے اسلام قبول کیا جب سکھوں نے کشمیر پر قبضہ کیا تو آپ کے خاندان نے کشمیر سے ہجرت کی اور پنجاب کے شہر سیالکورٹ میں آ کر آباد ہوگئے ۔آپ دو بھائی اور تین بہنیں تھیں ۔ بھائی آپ سے بڑے تھے جن کا نام شیخ عطا محمد تھا ۔ تین بہنیں طالع بی بی ،فاطمہ بی بی اور زینب بی بی تھیں۔آپ کے والدین تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر اپنے بیٹے محمد اقبال کے بارے میں سوچ رکھا تھا کہ اسے ضرور اعلی تعلیم دلوائیں گے پھر اس پر عمل بھی کرتے دکھائی دئیے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے والد نے کچھ عرصہ ایسے ادارے میں ملازمت کرتے رہے جس میں رشوت عام تھی آپ کے والد نہایت ایماندار تھے ۔اس کے باوجود آپ کی والدہ کو یہ خطرہ ہو چلا تھا کہ غلطی سے بھی گھر میں حرام کی کمائی نہ آئے جائے ۔ لہذا ماں نے اپنے بیٹے محمد اقبال کو حلال غذا دینے کےلئے بکری پال رکھی تھی ۔ ماں ہمیشہ گھر میں اسی بکری کا دودھ آپ کو پلاتیں تاکہ حلال غذا سے پرورش ہو ، مانے یا نہ مانے دل کہتا ہے کہ اقبال کا اقبال بلند اسی غذا سے ہوا ہے ۔ کاش ہم حلال اور حرام کے فرق کو سمجھیں جس کی بھی پرورش رزق حلال ہوئی ہوتی ہے اس کی وجہ شہرت ایک اچھے نام سے ہوتی ہے ۔ علامہ اقبال کی والدہ عظیم ماں تھی آپ بچپن سے اپنی قریبی مسجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے ۔پھر جب بڑے ہوئے تو آپ کو ابتدائی تعلیم کےلئے کرسچن اسکول سیالکوٹ میں داخل کروا یا۔ نویں دسویں میں اپنے اسی اسکول میں بیت بازی کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا ۔1893 میں مشن ہائی اسکول سے میٹرک اول پوزیشن سے پاس کیا ۔سکول سے فارغ ہوتے ہی آپ کریم بی بی سے نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ۔شادی کے بعد بھی تعلیم جاری رکھی۔1895 میں آپ نے انڑ میڈیٹ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، اسی سال حکیم امین الدین کے گھر پر مشاعرہ ہوا جس میں آپ نے بھی شرکت کی ۔ اس مشاعرہ میں اپنے شعر پڑھے جس سے آپ کا تعارف بطور شاعر ہوا ۔ 1899 گورنمنٹ کالج لاہور سے آپ نے فلسفے میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد چار سال تک تدریس کے شعبہ سے وابسطہ رہے۔ 1903 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر بنے ۔ اس کے اگلے سال آپ کا لکھا گیا ترانہ ، سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، اس ترانے نے ہندوستان سارے میں دھوم مچا دی ۔ 1905 میں مزید تعلیم حا صل کرنے انگلینڈ تشریف لے گئے ۔ یہاں سے کیمرج یو نیورسٹی سے فلسفہ ا خلاق کی سند حا صل کی ۔ اس کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک رہے ۔دو ہزار گیارہ میں آپ کی نظم شکوہ کو شہرت ملی۔ دو ہزار پندرہ میں اسرار خودی نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ 1914 کو آپ کی والدہ وفات پا گئی ۔ 1918 میں اسرار خودی کا دوسرا حصہ رموز بے خودی منظر عام پر آیا۔ 1923 میں آپ کو سر کا خطاب ملا ۔ اس خوشی میں اہل لاہور نے مقبرہ جہانگیر میں آپ کے اعزاز میں عصرانہ دیا۔اس موقع پر اپنے خطاب میں بتایا کہ جرمن شاعر گوئٹے کے دیوان مغرب کے جواب میں پیام مشرق لکھ رہا ہوں پھر اسی سال اس نظم کی اشاعت بھی ہو گئی۔ 1924 میں آپ کے ہاںجاوید اقبالکی ولادت ہوئی (جاوید اقبال نے وکالت کا پیشہ پسند کیا ۔ کہا جاتا ہے 30 19 میں علامہ نے سیاسی زندگی کا با قاعدہ آغاز کیا اسی سال آپ کے والد کا انتقال ہوا۔1933 میں پنجاب یو نیورسٹی نے آپ کی اعلی تعلیمی کی خدمات کے صلے میں ڈاکٹریٹ ان لیٹریچر کی اعزازی ڈگری دی گئی ۔ 1935 میں بال جبریل اور 1936 میں ضرب کلیم کی اشاعت ہوئی ۔ علامہ اقبال اردو فارسی زبان کے وہ مشہور شاعر اور شخصیت ہیں جن پر لکھی جانے والی کتب کی تعداد سیکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں میں ہو چکی ہے ۔ اردو شاعری میں بانگ درا، بال جبریل ، ضرب کلیم اور فارسی میں اسرار خودی ،رموز بے خودی ،پیام مشرق ار مغا ن حجاز تحریر کیں۔

ضرور پڑھیں: مولانا سمیع الحق کے قتل کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ تبدیل
آپ کے لکھے گئے خطوط اور انگریزی مضامین کا کوئی ثانی نہیں ۔ آ پ کی شاعری دل کو چھو لینے والی شاعری ہے ۔ مجھے اپنے اسکول کے ابتدائی ایام یاد ہیں ہر صبح سر میں لب آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری پڑھی جاتی تھی ۔ ایسی خوبصورت دعا جسے سن کر دل پر اثر ہوتا تھا۔اب ایسا نہیں ہے ، وجہ یہ ہے اب تعلیمی اداروں نے انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے اس دعا کو حکومت تمام اسکولوں میں صبح کے وقت پڑھنا لازمی قرار دے تو اس کے اچھے ثمرات مل سکتے ہیں ۔۔