پاکستان میں لنڈا بازار جانا مجبوری تو امیر ملکوں میں اب ’فیشن‘

پاکستان میں مہنگائی اور مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ لنڈا یعنی استعمال شدہ اشیا کے بازاروں کا رخ کرتے ہیں لیکن دنیا کے امیر ترین ملکوں میں بھی لوگ ایسے بازاروں کا رخ کرتے ہیں، تاہم اس کی وجوہات قدرے مختلف ہیں۔

فن لینڈ کے شہر ہلسنکی کے مضافات میں کیٹی روزی اپنی بیٹی اور کمسن بیٹے کے ساتھ کتابوں کے استعمال شدہ شیلف کی تلاش میں ہیں۔

جس جگہ وہ شیلف دیکھنے آئی ہیں وہاں سے سڑک پار سویڈین کی فرنیچر کی ایک بڑی عالمی کمپنی آئیکیا کا شو روم ہے لیکن کیٹی کی دلچسپی اس سٹور کی بجائے میونسپل انتظامیہ کے زیر انتظام چلنے والے سینٹر میں ہے۔
کیٹی کے بقول’ میں آئیکیا نہیں جانا چاہتی کیونکہ مجھے یہاں اس سے زیادہ مزے کی چیز مل جائے گی جو زیادہ اصل بھی ہو گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ’ میں نہیں چاہتی کے میرے پاس بھی وہی فرنیچر ہو جو ہر کسی کے پاس ہے اور یہاں سے جو میں خریدوں گی وہ قیمت میں کم اور زمین کے ماحول کے لیے اچھا ہو گا۔‘

وسائل کے استعمال اور روزمرہ اشیا کی تیاری کے نتیجے میں کاربن کے اخراج کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات میں اضافے کی وجہ سے کیا یہ جگہ باقی دنیا کے لیے بھی سبق ہے؟

اس بارے میں مزید پڑھیے

خاموش ملک: جہاں بات کرنے کو زباں بھی ترس جائے

دنیا میں سب سے زیادہ خوشی کس ملک میں؟

مستقبل کی ’سمارٹ‘ کچی آبادیاں

فن لینڈ میں غیر منافع بخش تنظیم کا استعمال شدہ اشیا کا سٹور اپنی طرز کا انوکھا سٹور ہے۔ عام طور پر فن لینڈ میں آپ کو خریداری کے مشہور مقامات پر استعمال شدہ اشیا کے سٹورز نہیں ملیں گے۔

یہ سینٹرز برقی سامان کی مرمت کرتے ہیں اور اپنے برانڈ کے نام کے ساتھ انھیں ری سائیکل یا دوبارہ قابل استعمال بناتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کی ایپ بھی ہوتی ہے جس سے وہ آپ کی ماضی میں خریدی گئی اشیا کی بنیاد پر آپ کو اشیا کے دستیاب ہونے کے بارے میں آگاہ کرتی ہے۔

یہاں دو سہیلیاں چھٹی کے دن مختلف اشیا دیکھ رہی ہیں۔ ہانامیری جانسن نے بتایا کہ ’وہ اپنی نئی ملازمت کے لیے نئے ملبوسات دیکھ رہی ہیں۔ میں اپنے وہ کپڑے جو استعمال میں نہیں ہیں، وہ دے دوں گی جیسا کہ آپ کچھ لائیں اور کچھ خرید کر لے جائیں۔‘

پنجا لوریا نے کہا، ’مجھے یہ جگہیں بہت پسند ہیں۔ میں لگزمبرگ میں رہتی تھی جہاں استعمال شدہ اشیا کی دکانیں تھیں لیکن وہ اس طرح کی نہیں ہیں۔ وہاں ملبوسات اور کتابیں ہوتی ہیں لیکن فرنیچر نہیں اور آج میں یہاں نئی میز خرید رہی ہوں۔‘
40 کلومیٹر فی گھنٹہ میز
یہ سٹور عام سٹوروں سے مختلف ہے۔ سٹور کی مینجر پیپی میٹلایا نے مجھے دکان کے اس حصے کا دورہ کرایا جہاں چیزوں کو ری سائیکل کر نئی شکل دی جاتی ہے اور اسے پلان بی کہا جاتا ہے۔

یہاں پرانے پردوں سے تیار کردہ ملبوسات رکھے جاتے ہیں کیونکہ ’پردے کبھی آؤٹ آف فیشن نہیں ہوتے یعنی ان کا رواج ختم نہیں ہوتا۔‘

یہاں پر بینچ بھی موجود تھا جسے سنو بورڈ سے تیار کیا گیا اور ٹیبل بھی ہے جس پر 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کا ٹریفک سائن نصب ہے۔

پیپی نے بتایا کہ یہ چیزیں عام طور پر استعمال شدہ اشیا کی قیمت سے زیادہ میں فروخت ہوتی ہیں۔

’ہم چاہتے ہیں کہ پرانی اشیا کو پذیرائی ملے۔ یہ چیزیں منفرد ہیں اور مکمل طور پر نئی تیار کی گئی ہیں اور ہمیں اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے۔‘
متروک فیشن کے کھوجی
کیسی کرجیلینن ماحولیات کی ماہر ہیں اور انھوں نے مجھے الماری میں رکھے ملبوسات دکھائے جنھیں ماحولیات کے بارے میں تربیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’سکول کے بچے یہاں آتے ہیں اور انھیں سکھایا جاتا ہے کہ کپڑوں کے معیار کی کس طرح جانچ کی جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ متروک فیشن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔‘

کیسی کے مطابق ’یہ مشکل کام ہوتا ہے کہ ایسے ملبوسات تلاش کیا جائے جن کی دھلائی صرف چند بار ہی ہوئی ہے اور ہمیں بہت سارے ملبوسات کو پھینکنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی حالت کافی خراب ہوتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جو کوئی بھی سٹور سے خریداری کرتا ہے تو رسید کے پیچھے تعریفی کلمات لکھے جاتے ہیں جس کا مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ آپ نے نئے کی بجائے پرانے ملبوسات خرید کر کس طرح سے قدرتی وسائل کو بچایا ہے۔‘
خریداری پر بھلائی کرنے کا احساس
فرض کریں اگر میں نے کرسمس پر سجاوٹ کے لیے دو پیارے سے گلاس خریدے ہیں تو مجھے دی گئی رسید میں شکریہ ادا کیا جائے گا کہ آپ نے اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل، ریت، تیل اور دیگر اشیا کی مد میں 84 کلوگرام قدرتی وسائل کو بچایا ہے۔

سٹور کے مطابق گذشتہ سال اشیا کی فروخت کی مد میں انھوں نے اندازاً پانچ کروڑ کلوگرام کے قدرتی وسائل کو بچایا۔

مجھے حیرت ہوئی کہ کیئراتائی سکیسکس جیسے بڑے سٹورز کو ملازمین کے بغیر چلایا جا سکتا ہے کیونکہ لوگ خیرا