کن ممالک میں لوگ اجنبیوں کی زیادہ مدد کرتے ہیں...؟

کیا وجہ ہے کہ میانمار کے باشندے جن کی فی کس آمدن صرف 1350 امریکی ڈالر ہے ناروے کے لوگوں سے جو اُن کے مقابلے میں 60 گنا زیادہ امیر ہیں خیراتی اداروں کو زیادہ عطیہ دیتے ہیں؟

اور کیا وجہ ہے کہ انڈونیشیا کے وہ باشندے تعداد میں اُن جرمن باشندوں سے دوگنا زیادہ ہیں جو رضاکارانہ کام کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ انڈونیشیا میں کام کے اوقات دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں جبکہ جرمنی ان ملکوں میں ہے جہاں یہ سب سے کم ہیں۔

ایک نئی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تمام لوگ بھلائی کا کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں تاہم کچھ جگہ ماحول اس کے لیے زیادہ سازگار ہوتا ہے۔
اجنبیوں کی مدد
گیلپ کی سب سے مخیر ممالک کی رپورٹ براۓ سال 2018 کے مطابق برازیل اور ترکی کے رہنے والے اپنے دوستانہ رویوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں تاہم کوئی اجنبی مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے اس بات کا امکان لیبیا اور عراق میں دوگنا زیادہ ہے۔

سوال: کیا آپ نے کسی اجنبی کی مدد کی ہے؟
ملک آبادی کا تناسب ملک آبادی کا تناسب
لیبیا 83% بیلاروس 31%
عراق 81% چین 31%
کویت 80% انڈیا 31%
لائبیریا 80% مقدونیہ 30%
سیئیرا لیون 80% لیٹویا 28%
بحرین 74% جمہوریہ چیک 26%
گیمبیا 74% کروئیشیا 25%
سعودی عرب 74% جاپان 23%
کینیا 72% لاؤس 22%
جنوبی افریقہ 72% کمبوڈیا 18%
امریکہ 72%
گیلپ نے سنہ 2017 میں 146 ممالک کے 150000 سے زائد افراد سے یہ سوال کیا کہ آیا گذشتہ ایک ماہ کے دوران انھوں نے کسی خیراتی ادارے کو عطیہ دیا یا کسی اجنبی کی مدد کی یا کسی ادارے کے لیے رضاکارانہ کام کیا۔

نتائج کے مطابق دنیا کے 7.6 ارب باشندوں میں سے 2.2 ارب افراد نے کسی اجنبی کی مدد کی، 1.4 ارب نے اپنی رقم کا کچھ حصہ خیرات کیا جبکہ ایک ارب لوگوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ کام کے لیے پیش کیں۔

لیکن مختلف ممالک میں پائے جانے والے فرق کی وجہ کیا ہے؟

لوگ دوسروں کی مدد کیوں کرتے ہیں؟
گذشتہ برسوں کے دوران محققین سماج دوست رویوں پر کی گئی اپنی مختلف تحقیقات سامنے لاتے رہے ہیں۔

برطانیہ میں قائم یونیورسٹی آف ایسیکس کے سکول برائے نفسیات کے پروفیسر پیٹر بی سمتھ نے بی بی سی کی بتایا کہ ’اس گتھی کو سلجھانا کافی مشکل ہو گا کہ کون سی وجوہات مختلف اقوام کے رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں‘۔
خیرات دینے کا رجحان نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ معاشرے کے رجحان کی عکاسی بھی کرتا ہے
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’کچھ ممالک اوپر بیان کے گئے سماج دوست رویوں کے حوالے سے بہت بہتر ہیں جبکہ کچھ بہت کم تاہم یہ مخصوص علاقائی حالات ہیں جو کہ (مدد کرنے) کے عمومی رجحان کو کمزور کر سکتے ہیں۔‘

2015 میں بین الثقافتی نفسیات کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں پروفیسر سمتھ نے اقوام کے سماجی معاشی اور ثقافتی وجوہات جیسا کہ دولت، یقین، غیر مساوی آمدن، بدعنوانی، ڈر اور کسی مخصوص گروہ یا مذہب کی ثقافت پر روشنی ڈالی تھی۔

مثال کے طور پر چند سماجی گروہ اجتماعیت پر یقین رکھتے ہیں جہاں گروہ ایک فرد پر برتری رکھتا ہے۔ تاہم ایسے مخصوص گروہ کے لوگ گروہ سے باہر کے افراد کی ایمانداری پر شک کرتے ہیں۔
دوسروں کی مدد آپ کو مسرت دیتی ہے
کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ لیوائن کا کہنا ہے کہ عطیہ کرنے کا انفرادی عمل کسی معاشرے کے حوالے سے بہت کچھ آشکار کرتا ہے۔

چند معاشروں نے عطیہ کرنے اور رضاکارانہ کام کرنے کے عمل کو اپنے شہریوں کے لیے آسان بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر لوائن نے بی بی سی کو بتایا ’اس کا تعلق سماجی اصولوں اور بعض اوقات ملک کو کنٹرول کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کی اقدار سے ہوتا ہے۔‘

معاشرتی ہم آہنگی کے حوالے سے ممالک کا سکور
ملک سکور ملک سکور
انڈونیشیا 59 میسیڈونیا 20
آسٹریلیا 59 ترکی 20
نیو ز ی لینڈ 58 کروشیا 20
امریکہ 58 موریتانیہ 20
آئرلینڈ 56 لاؤس 20
برطانیہ 55 تیونسیہ 20
سنگا پور 54 افغانستان 19
کینیا 54 لٹویا 19
میانمار 54 لیتھوانیا 19
بحرین 53 آذربائیجان 18
کمبوڈیا 18
فلسطین 17
چین 17
یونان 17
یمن 15
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے راستے تلاش کیے جائیں کہ لوگ اجنبیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کر سکیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کریں اور مدد کرنے والا اور امداد لینے والا ایک دوسرے سے رابطہ کر پائیں۔

ڈاکٹر لیوائن کا کہنا ہے کہ بےلوث مدد کا یہ جذبہ نہ صرف امداد لینے والوں کے لیے بہتر ہے بلکہ مدد کرنے والا بھی اچھا محسوس کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ تمام افراد جو اپنا وقت اور پیسہ دوسرے افراد پر خرچ کرتے ہیں وہ اس عمل کے بعد زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں۔

’ایسے لوگ اس پل زیادہ خوش ہوتے ہیں، اس کے بعد خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اس عمل کے ہفتوں بعد بھی خوشی محسوس کرتے ہیں۔