مردوں کے مقابلے میں خواتین کے زیراستعمال اشیا مہنگی کیوں۔۔۔؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے روزمرہ استعمال کی کچھ اشیا صرف اس لیے مہنگی ہوتی ہیں کہ وہ خواتین کے لیے بنی ہیں؟

اس فرق کو ’پنک ٹیکس‘ کا نام دیا گیا ہے اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں اس معاملے پر بحث جاری رہتی ہے البتہ پاکستان میں کم ہی خواتین یہ سمجھ پاتی ہیں کہ ان کے زیرِ استعمال بعض اشیا اپنی ترکیب میں تو مردوں کے زیرِ استعمال اشیا جیسی ہیں، لیکن دونوں کی قیمتوں میں خاصا فرق ہے۔

بی بی سی نے اسلام آباد کے چند سٹورز پر ان برانڈز میں سے بعض کا جائزہ لیا جو اپنی مصنوعات مردوں اور خواتین کے لیے الگ الگ تیار اور مارکیٹ کرتی ہیں۔ اس دوران ہم نے ان میں شامل اجزا یا ان کے میٹریل سے متعلق معلومات بھی لیں جو بظاہر ایک سے ہیں۔ یہ تقابلی جائزہ ان اشیا کا لیا گیا جو مقدار یا سائز میں ایک سی تھیں۔
یہ بھی دیکھیے
چار چیزیں جن کے لیے خواتین مردوں سے زیادہ پیسے دیتی ہیں

ایک مشہور برانڈ کے مرد اور خواتین کے لیے شیمپو کے اجزا کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ خواتین کے لیے بنے شیمپو میں وہ تمام اجزا موجود ہیں جو اسی کمپنی کے مردوں کے لیے تیار شیمپو میں تھے بلکہ سیاہ رنگ کے تھے۔

لیکن ان دونوں بوتلوں پر قیمت کا ٹیگ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ خواتین کا شیمپو کی قیمت چار سو روپے زیادہ تھی۔

دوسری پراڈکٹ شیونگ ریزر کی لی گئی۔ ایک ہی کمپنی کے تین ریزرز کے پیکٹ کی قیمت اسی کمپنی کے مردوں کے چار شیونگ ریزرز کی قیمت سے دو گنا زیادہ تھی۔

ان دونوں مصنوعات میں بڑا فرق رنگ اور پیکجنگ کا تھا۔ یہ مصنوعات تیار کرنے والی ایک مقامی کمپنی کے مارکیٹنگ مینجر علی فرقان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا نہیں کہ ان مصنوعات میں فرق نہیں ہوتا، عام طور پر خواتین کے لیے تیار کی گئی پراڈکٹس زیادہ نفیس ہوتی ہیں، اور ان کی پیکجنگ اور پھر تشہیر زیادہ مہنگی ہوتی ہے، اس لیے ان کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘
تاہم ان کے خیال میں پاکستان میں ’پنک ٹیکس‘ عام نہیں ہے، اور مقامی سطح پر تیار ہونے والی اشیا کی قیمتیں ’کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں۔‘ البتہ بین الاقوامی برانڈز میں یہ فرق زیادہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔

اسلام آباد کے ایک شاپنگ مال میں خریداری کے لیے آنے والی سپورٹس ٹیچر سعدیہ کا کہنا ہے کہ کھیل کے میدان میں تو نہیں لیکن اس سٹور میں آ کر انھیں اپنے خاتون ہونے کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’برانڈز تو مہنگے ہیں ہی، مگر یہاں تو ہر شخص ہی خاتون کو دیکھ قیمتیں کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ ڈرائی کلینر بھی پیچھے نہیں۔ وہ ایک خاتون کی سادہ ڈریس شرٹ کے اس لیے زیادہ پیسے لیتے ہیں کہ یہ خاتون کی ہے۔‘

’آپ ان سے بحث کریں تو ان کے پاس سو بہانے تیار ہوں گے کہ اس کے بازو ایسے ہیں، اس کے بٹن فینسی ہیں، ان میں جھالر لگی ہے یا کوئی لیس لگی ہے، اس کی سلِیوز ایسے ہیں یا اس کے بازو ہیں ہی نہیں۔ اور بحث اس وقت ختم ہوتی ہے، جب آپ ان کی مرضی کے پیسے دیں۔‘

اسی مال میں موجود ایک اور خریدار فاریبا سمجھتی ہیں کہ پنک اور بلیو رنگ کی اس  تفریق کا سامنا  بچپن سے ہی کرنا پڑتا ہے، ’کمسن لڑکوں کے کپڑے اور کھلونے بچیوں کے کپڑوں اور کھلونوں سے زیادہ مہنگے ہیں۔‘

ان کے مطابق وہ تین گھنٹے کی ونڈو شاپنگ کے باوجود قیمتوں کی وجہ سے کچھ خرید نہیں پائیں، ’صرف میرے بالوں کی مختلف پراڈکٹس پر میری تنخواہ کا بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مردوں کے لیے یہی پراڈکٹس کس قدر سستی ہیں، صرف اس لیے کہ خواتین کو نفسیاتی طور پر کوئی شے خریدنے کے لیے مجبور کرنا آسان سمجھا جاتا ہے۔ ‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ پنک اور بلیو کی تفریق ہے ہی کیوں۔ میں یہاں آئی ہوں یہاں اور اپنی بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمت پر حیران ہوں۔‘

پاکستان میں چھوٹے برانڈز میں تو یہ فرق خاصا کم ہے، تاہم بڑے برانڈز اور برآمد ہونے والی اشیا میں یہ فرق ایک ہزار سے شروع ہو کر کم از کم پندرہ ہزار روپے تک کا ہے۔

جبکہ بعض برانڈز میں کچھ اشیا ایسی بھی تھیں جن کی قیمتیں مردوں کے لیے زیادہ ہیں۔ ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان مصنوعات کے مرد خریدار کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ جیسا کہ بعض ایسے کھیلوں کا سامان جو پاکستان میں لڑکیاں نہیں کھیلتی ہیں۔

امریکہ کی ایک سرکاری تحقیق کے مطابق خواتین کو تقریباً ایک ہی جیسی مصنوعات پر مردوں کی نسبت سات فیصد زیادہ پیسے دینے پڑتے ہیں۔

مشہور برانڈز شیمپو اور کنڈیشنرز پر 48 فیصد زیادہ، ڈریس شرٹس 13پر فیصد جبکہ جینز کی قیمت دس فیصد زیادہ ہے۔ بالوں کی کٹنگ خواتین کو کئی گنا زیادہ مہنگی پڑتی ہے۔
اجزا اور مقدار کے لحاظ سے ایک جیسی مصنوعات میں فرق صرف رنگ اور پیکجنگ کا ہوتا ہے۔ ماہرین اسے مارکیٹنگ ٹیکٹکس کہتے ہیں۔

ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ خواتین کی ہائی جین مصنوعات پر ٹیکس ک