الطاف حسین: ’میرے پاس پیسے نہیں، وجہ کیا ہے ...؟

پاکستان کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین تنظیمی بحران کے بعد مالی بحران کا بھی شکار ہوگئے ہیں۔

اپنے ایک حالیہ خطاب میں انہوں نے کارکنوں اور ہمدردوں سے شکوہ کیا ہے کہ عطیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں۔

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن سے کچھ عرصے قبل کراچی سے فرار ہو کر لندن پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔

الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے بارے میں مزید پڑھیے
الطاف حسین کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی منظوری

’الطاف حسین کا پاسپورٹ، شناختی کارڈ بلاک کیا جائے‘

کیا الطاف حسین اپنا اثر کھو چکے ہیں؟

’ایم کیو ایم وہی جس کے قائد الطاف حسین ہیں‘
کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر کے نزدیک قائم ’مکا چوک‘ جہاں سے الطاف حسین کے نام کی تصاویر اور پوسٹرز اب ہٹا دیے گئے ہیں
الطاف حسین کے جانے کے بعد ایم کیو ایم کو تنظیمی طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا جن میں سے ایک کا دفتر لندن میں ایجوئر روڈ پر واقع ہے جسے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا دفتر کراچی میں عزیز آباد میں واقع ہے جو نائن زیرو کے نام سے مشہور ہے۔

الطاف حسین نے لندن میں مقیم کارکنوں اور ہمدردوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ برطانیہ والوں میرے دفتر کا خرچہ تو تم نکال سکتے ہو۔

'میں پوری دنیا کے ساتھیوں کو بتا رہا ہوں آپ نے سیکیورٹی کے جو انتظامات کیے ہیں میرے پاس پیسے نہیں۔ میں ساری سیکیورٹی ہٹا رہا ہوں، اگر میں ماردیا جاؤں تو بس دعا خیر کرنا۔یہاں سیکیورٹی مفت میں نہیں ہوتی یہ پاکستان نہیں ہے۔'

برطانوی حکام نے ماضی میں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کی تھی لیکن 2016 میں یہ تحقیقات ختم کر دی گئی۔

سکاٹ لینڈ یارڈ کے ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ تمام ثبوتوں کی تحقیقات کے بعد سکاٹ لینڈ یارڈ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس بات کے ناکافی شواہد ہیں کہ 2012 اور 2014 کے درمیان ملنے والی پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم جرائم کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اور یا اس رقم کو غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
الطاف حسین کا لندن میں گھر
الطاف حسین نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ چندے اور عطیات کی فراہمی صرف برطانیہ والوں کی ذمہ داری نہیں، امریکہ والے کہتے ہیں کہ ہم نے دس ہزار پاؤنڈ جمع کرلیے تھے وہ بینک والوں نے واپس کردیئے۔

'بھائی پانچ پانچ ہزار کسی بھی امریکی ریاست کے ایئرپورٹ پر لے جاؤ کوئی مہاجر نظر آئے اسے لفافہ اور پتہ دے دیں۔ انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے کوئی آئیگا لفافہ لے جائیگا۔ امریکہ والوں کئی طریقے ہیں بھیجنے کے لیے لیکن تم بھیجنا چاہتے ہی نہیں ہو۔'

ایم کیو ایم کے بانی کی سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی جانے والی اس تقریر میں انھوں نے بیرون ملک کارکنوں سے بھی شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 'کینیڈا والوں تم بھیجنا ہی نہیں چاہتے پھر بینک کے بہانے بناتے ہو، جنوبی افریقہ والے تو قسم کھا کھا کر پروگرام تو اچھے کرلیتے ہیں جذبات بھی اچھے ہیں لیکن مال کے معاملے میں بالکل سوئے ہیں۔ جرمنی،آسٹریلیا اور بیلجیئم سے جو فنڈز آیا کرتے تھے بلکل بند ہوگئے ہیں اسی طرح مڈل ایسٹ سے سلسلہ بالکل ختم ہوگیا ہے۔'

یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی اگست 2016 میں متنازعہ تقریر کے بعد ایم کیو ایم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔
اگست 2016 میں الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے کراچی میں تمام دفاتر کو سیل کردیا گیا تھا
ایم کیو ایم پاکستان نے لندن کی قیادت سے لاتعقلی کا اظہار کردیا تھا، جبکہ ایم کیو ایم کے کراچی میں تمام دفاتر کو سیل کردیا گیا۔

عدالتی حکم کے بعد ایم کیو ایم کے سربراہ کی تقریر و تصویر کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اسی عرصے میں ایم کیو ایم میں مزید انتشار آیا اور ڈاکٹر فاروق ستار الگ ہوگئے جبکہ لندن میں پارٹی کے رہنما ندیم نصرت اور واسع جلیل نے راہیں جدا کرلیں۔

ایم کیو ایم لندن کے کنوینر ڈاکٹر ندیم احسان نے الطاف حسین کی مالی مشکلات کے بارے میں تقریر کی تصدیق کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 2016 سے قبل کراچی سے منتخب نمائندے، کارکن اور ہمدرد چندہ بھیجتے تھے جس سے تنظیمی معاملات چلائے جاتے تھے لیکن یہ سلسلہ اب رک گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی چندہ دینے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس حراست میں لے لیا جاتا ہے کیونکہ الطاف حسین آج بھی مقبول رہنما ہیں۔
الطاف حسین پر پاکستان میں ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ بھی دائر ہے
ندیم احسان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کی تقریر کا مثبت رد عمل سامنے آیا ہے اور کافی کارکنوں اور ہمدروں نے رابطہ کیا ہے اور تنظیمی طور پر بھی ان کی اس شکایت کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

لندن سیکریٹ