طالبان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں۔۔۔؟

طالبان نے کابل میں رواں سال کے اوائل میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 95 افراد مارے گئے تھے
امریکہ کی جانب سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے بڑی تعداد میں اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

امریکی فوجی افغان حکومت کو طالبان اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف لڑنے میں امداد فراہم کر رہے ہیں۔

طالبان افغانستان کا اہم متحارب گروپ ہے جس کے 60 ہزار جنگجو ہیں اور سنہ 2001 کے بعد یعنی امریکی اتحاد کی جانب سے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد فی الحال افغانستان میں سب سے زیادہ علاقے پر اس کا کنٹرول ہے۔
کابل کی حکومت کو امریکہ کی جانب سے فوجی اور مالی معاونت کے باوجود یہ جنگ زیادہ شدید اور پیچیدہ ہوتی گئی ہے۔

اس سطح پر بغاوت کو قائم رکھنے کے لیے ملک کے اندر اور باہر دونوں جانب سے بہت زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

تو طالبان کس طرح اپنے لیے حمایت حاصل کرتا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

امریکہ افغانستان سے کیوں نکل رہا ہے؟

شام سے انخلا کے بعد افغانستان میں امریکی فوج میں کمی کا فیصلہ

افغانستان میں پوست کی کاشت میں ریکارڈ اضافہ

طالبان کتنا دولت مند ہے؟
طالبان نے سنہ 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی اور وہاں شریعہ قانون کو سختی کے ساتھ نافذ کیا۔

اقتدار سے ہٹنے کے بعد سے وہ طویل عرصے سے ملک بھر میں بغاوت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

فنڈنگ کے ذرائع کا پتہ چلانا معلومات پر منبی اندازہ لگانا ہے کیونکہ خفیہ طور پر کام کرنے والی عسکری تنظیمیں اپنے آمد و خرچ کی اشاعت نہیں کرتیں۔

لیکن افغانستان کے اندر اور ملک سے باہر بی بی سی نے جو انٹرویوز کیے ان سے ان کے پیچیدہ مالی نٹورک اور ٹیکس کے نظام کا اندازہ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بغاوت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سنہ 2011 کے بعد اس گروپ کی آمدن کا اندازہ 40 کروڑ امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس میں حالیہ دنوں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور یہ ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر تک ہو سکتا ہے۔
افغان اور امریکی حکومتوں نے ان نٹورکس پر لگام لگانے کی کوشش کی ہے۔ ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے قبل امریکی فوج نے منشیات کی تجربہ گاہوں پر بمباری کی اپنی نئی حکمت عملی پر بھروسہ کیا ہے۔

بہر حال طالبان کی آمدن کے ذرائع منشیات کی تجارت کے ماسوا بھی بہت ہیں۔ سنہ 2012 میں اقوام متحدہ نے اس عام تصور کے خلاف خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں پوست کی معیشت طالبان کی آمدن کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

افیون، محصول اور جبری مالی وصولی
افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا ملک ہے۔

وہاں سے سالانہ ڈیڑھ سے تین ارب ڈالر کی افیون کی بڑی تجارت ہوتی ہے اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر ہیروئن پہنچاتا ہے۔

ہرچند کہ افغان حکومت کے کنٹرول والے علاقے میں بھی پوست کی کاشت ہوتی ہے لیکن زیادہ تر پوست طالبان کے کنٹرول والے علاقے میں پیدا ہوتی ہے اور یہ ان کی آمدن کا بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔

طالبان اس کے مختلف مراحل پر عائد ٹیکس سے پیسے حاصل کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

افغان طالبان سے مذاکرات اور امید کی فضا

کیا امداد بند کرنے سے امریکہ کا مقصد پورا ہو گا؟

’پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے جن کے خلاف ہم چاہتے ہیں‘

کسانوں سے پوست کی کاشت کے لیے دس فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ ان لیب سے بھی ٹیکس لیا جاتا ہے جہاں افیون سے ہیروئن بنائی جاتی ہے اور ان تاجر سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو غیر قانونی منشیات کی سمگلنگ کرتے ہیں۔

غیر قانونی منشیات کی معیشت میں طالبان کا سالانہ حصے کا اندازہ دس کروڑ سے 40 کروڑ امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔
جون میں امن رضاکاروں نے ہیلمند سے کابل تک مارچ کیا جس میں افغان حکومت اور طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کی گئی
تجربہ گاہوں پر بمباری
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے گذشتہ دو سالوں میں افغانستان میں بغاوت کے خلاف امریکی حکمت عملی کے زیادہ جارحانہ رخ کے تحت امریکہ نے ایک بار پھر طالبان کے مالی نٹورک اور محصول کے ذرائع کو نشانہ بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے جن میں منشیات کی تجربہ گاہیں بھی شامل ہیں جن میں افیون سے ہیروئن بنائی جاتی ہے۔

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ طالبان کی 60 فیصد سے زیادہ آمدنی منشیات سے ہوتی ہے۔

اگست سنہ 2018 تک امریکہ نے دعوی کیا کہ اس نے ملک میں وجود رکھنے والی 400 سے 500 کے درمیان منشیات کی تجربہ گاہوں میں سے تقریبا دو سو کو تباہ کر دیا ہے جن میں سے نصف جنوبی ہیلمند صوبے میں تھی۔
یہ بھی دعوی کیا گیا کہ فضائی مہم نے طالبان کو افیون کی تجارت سے ہونے والی ایک تہائی آمدن کو ختم کر دیا۔
لیکن اس مہم کے طویل مدتی اثرات ابھی واضح نہیں ہیں۔ اگر چہ تجربہ گاہیں تباہ کردی گئی ہیں تاہم ان کا دوبارہ بنانا آسان اور کم خرچ ہ