سپین میں شیطان کے مسکراتے ہوئے مجسمے پر عوام ناراض۔۔۔؟

یہ مجسمہ اس پل پر نصب کیا جانا ہے جس کا ذکر شہر کے بارے میں ایک قدیم کہانی میں ملتا ہے
سپین کے شہر سگوویا میں شیطان کا مجسمہ نصب کرنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے کیونکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مجسمے میں شیطان کچھ زیادہ خوش نظر آ رہا ہے۔

کانسی سے بنائے گئے اس مجسمے کا مقصد شہر سے وابستہ ایک قدیم کہانی کی یاد تازہ کرنا تھا جس کے مطابق ساگوویا کا مشہور قدیمی نالہ شیطان کو بیوقوف بنا کر اس سے ہی بنوایا گیا تھا۔

لیکن شہریوں کے مطابق شیطان جو مسکراتے ہوئے اپنے سمارٹ فون سے سیلفی لے رہا ہے کچھ زیادہ دوستانہ نظر آ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’تفریح کو اس سارے معاملے میں کیوں گھسیٹتے ہو؟‘

کرفیو نے فنکار بنا دیا

مجسمہ بنانے والے فنکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مجسمے پر ہونے والی تنقید نے انھیں حیران کر دیا۔

ایک جج نے اس فن پارے کی تنصیب پر عارضی پابندی لگا دی ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کیا آیا یہ مجسمہ مسیحیوں کے لیے اشتعال انگیز تو نہیں۔

5400 سے زیادہ افراد نے جو کہ شہر کی 10 فیصد آبادی بنتے ہیں،ایک عوامی درخواست پر دستخط کیے ہیں جو یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ مجسمپ نصب نہ کیا جائے۔

درخواست کے مطابق کیونکہ مجسمے میں شیطان کو فون ہاتھ میں لیے مسکراتا دکھایا گیا ہے اور بظاہر اس میں کوئی برائی کا عنصر موجود نہیں ہے اس لیے یہ کیتھولک مسیحیوں کے لیے اشتعال انگیز ہے۔
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ شیطان کا چہرہ اتنا دوستانہ نہیں ہونا چاہیے
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ شیطان کا کردار گھناؤنا سمجھا جاتا ہے نہ کہ شفیق اور دلکش جیسے کہ وہ کوئی اچھی فطرت اور کسی سے عداوت نہ رکھنے والی مخلوق ہو۔

لیکن اس سارے تنازعے نے مجسمہ ساز انٹونیو ابیلا کو حیران کر دیا ہے۔

ابیلا نے جو کے پہلے ڈاکٹر تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مجسمہ ساز بن گئے ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ میرے لیے ناقابل یقین بات ہے کہ لوگ اس شیطان کے مجسمے کی اتنی شددت سے مخالفت کر رہے ہیں، وہ جو ہمارے مقبول افسانے کی یاد میں ہے اور جس کے بارے میں سگوویا کے بچوں کو سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے سگوویا سے محبت ہے۔ میں یہاں گذشتہ تین دہائیوں سے رہ رہا ہوں اور امید کر رہا تھا کہ یہ مجسمہ میری جانب سے اس شہر کے لیے اظہارِ تشکر ہو گا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’مجھے اس مجسمے کے لیے کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔۔۔ میں نے یہ پیسوں کے لیے نہیں کیا بلکہ اس شہر کو جسے میں اپنا مانتا ہوں ذاتی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ آپ میرے جذبات سمجھ سکتے ہیں‘۔

شہر کی کونسلر کلاڈیا دے سینٹوس نے بھی اس مہم کو ’غیر منصفانہ اور دل شکن‘ قرار دیا۔

انھوں نے ایل پیس اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش کریں گی کہ منصوبے کے تحت مجسمہ نصب کیا جائے۔
msfsocial.com