انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاسی ڈرامے کے پیچھے کیا ہے۔۔۔؟

کشمیر کے بارے میں یہ بات سچ ہے کہ یہاں موسم، حالات اور سیاست کے بارے میں پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔

بدھ کو انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جو سیاسی ڈرامہ ہوا وہ اس کی مثال ہے۔ بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت ختم ہونے کے بعد پانچ ماہ پہلے اس نہایت ہی حساس ریاست میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔

ریاستی اسمبلی کو اس امید میں تحلیل نہیں کیا گیا تھا کہ شاید اسی سے نئی حکومت بن سکے۔ بدھ کو پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے یہ اشارہ دیا کہ وہ مل کر حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں۔ فارمولا یہ تھا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس حکومت بنانے کے لیے محبوبہ مفتی کی حمایت کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

گورنر آفس کی فیکس مشین خراب، اسمبلی تحلیل

کشمیر: بی جے پی کا پی ڈی پی سے اتحاد ختم، محبوبہ مفتی مستعفی

جب محبوبہ مفتی کا خط جموں میں (سردیوں میں جموں کشمیر کا دارالحکومت ہوتا ہے) مقیم گورنر ہاؤس پہنچا تو سیاسی سرگرمیاں اچانک تیز ہو گئیں۔ ایک گھنٹے کے بعد ہی ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے انیے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ اس اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔

اب گورنر کے اس فیصلے کے بارے میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ میڈیا میں اس پر بات ہو رہی ہے کہ گورنر کے اس قدم سے جموں و کشمیر میں جمہوریت کمزور ہوئی ہے۔ سوال اور بحث اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ اتنی جلدی میں کیوں کیا گیا، اور تب کیوں نہیں کیا گیا جب کانگریس، پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس پچھلے چار ماہ سے اس کا مطالبہ کر رہے تھے۔
آر ایس ایس کے لیے کشمیر شروع سے ہی اہم مسئلہ رہا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور اس سے جڑے مسئلوں میں باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن جب بات کچھ کرنے کی آتی ہے تو کچھ نہیں ہوتا۔

جموں کے علاقے میں نریندر مودی بہت تیزی سے ابھرے اور سنگھ سے انہیں بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ 2014 کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی ریاست میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔

وادی میں بی جے پی
الیکشن میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ پی ڈی پی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے ضرور آئی لیکن جموں علاقے میں بی جے پی کی بھاری اکثریت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسے میں مفتی محمد سعید نے بی جے پی مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی نے کہا کہ وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے اصولوں پر چلتے ہوئے، ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو برقرار رکھنے، سبھی فریقوں سے مذاکرات کرنے، اور کئی بجلی کے منصوبوں کو ریاست میں واپس لانے کے لیے تیار ہے۔

اس سے ہوا یہ کہ کشمیر کے نام پر بی جے پی کے تاریخی موقف اور تحریک کے لیے کچھ نہیں بچا۔ جس کے کچھ عرصے بعد دائیں بازو کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے آئین کے آرٹیکل 35اے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
بی جے پی کا فائدہ
بی جے پی کے لیے فائدہ یہ تھا کہ اسے وادی میں پیر جمانے کا موقع مل گیا۔ جلد ہی اس نے کئی چہروں کو اپنی پارٹی کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا۔

پیپلز کانفرنس کے سربراہ اور عسکریت پسند رہنما عبدالغنی لون کے بیٹے سجاد لون کے 87 ارکان کی اسمبلی میں 2 رکن تھے۔ بی جے ہی کی حمایت سے ان کے وزیر اعلی بننے کی بھی بات ہوئی۔

اب سجاد لون نے بھی اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا ہے۔

کافی عرصے سے بی جے پی کشمیر کی سیاست کو بانٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ واجپئی کے دور سے ہی یہ عمل شروع ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 1996 کے متنازع انتخابات کے بعد، جس میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کامیاب ہوئی تھی، کوئی بھی کشمیری سیاسی جماعت اپنے بل بوتے پر حکومت نہیں بنا پائی ہے۔ 2002 میں پی ڈی پی کے کانگریس کی حمایت سے، اور پھر 2008 میں نیشنل کانفرنس نے کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی جبکہ 2014 میں مفتی سید نے بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنائی۔

اب ایک بار پھر ووٹوں کو بانٹنے کے لیے سجاد لون کی سربراہی والی پارٹی کو وادی میں ایک اور دعویدار کی طرح تیار کیا جا رہا ہے۔ مقصد بے حد صاف ہے کہ اقلیتی ووٹوں کو متحد کیا جا سکے اور اکثریت کا بٹوارا ہو، تا کہ وہ دن آئے جب وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر جموں کے علاقے کا ایک غیر کشمیری بیٹھ سکے اور کشمیری سیاست کی ایک ان کہی روایت کو توڑا جا سکے۔

نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اس گیم پلان سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن دونوں جماعتوں کی کانگریس کے ساتھ ’دوستی‘ میں دو اہم عنصر ہیں۔
پہلا یہ کہ مخلوط حکومت گرنے کے بعد کئی ارکان نے خود کو پی ڈی پی سے دور کر دیا اور سجاد لون کی حمایت میں سامنے آئے، اور قانونی مسائل کے باوجود آہستہ آہستہ حکومت بنانے کی کوشش میں لگ گئے۔