ایمپرس مارکیٹ کے قصاب کا گلہ: ’اتنے سالوں میں ان کو اب جا کر ہم سے بدبو آ رہی ہے‘

’یہ لوگ صبح کو ہی یہاں آگئے تھے اور ہماری دکانوں کو توڑنا شروع کر چکے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں اب کہاں جاؤں گا؟‘ محمد سراج نے میرے سوال پوچھنے سے پہلے ہی اپنی کہانی بیان کرنا شروع کر دی۔ یہی حال اس وقت یہاں موجود دکانداروں کا ہے جو راتوں رات اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔

سراج نے اپنی دکان کی جگہ موجود ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’چنیسر گوٹھ کے رہائشی محمد سراج پچھلے 40 برس سے ایمپریس مارکیٹ میں قصاب ہیں۔ ’مجھے پہلی بار میرے والد یہاں لے کر آئے تھے اور میں نے سارا کام انہی سے سیکھا ہے۔ میرے والد کو میرے دادا نے سکھایا تھا ۔۔۔ لیکن ان لوگوں نے کچھ نہیں چھوڑا۔‘
ایمپریس مارکیٹ میں موجود بیف مارکیٹ، کراچی کے ان بازاروں میں شامل ہے جہاں تجاوزات ہٹانے کا کام پچھلے کئی دنوں سے زور و شور سے جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کے یہ کام کئی سالوں سے رکا ہوا تھا جس پر اب کراچی میونسپل اتھارٹی اور حکومت سندھ مل کر کام کر رہی ہے۔

لیکن اس مہم کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریباً 100 سے زائد لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں جن کے ٹھیلے پتھارے ایمپریس مارکیٹ کے گرد و نواح میں موجود تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ دکاندار جو بیف مارکیٹ میں کام کررہے تھے ان کو 12 نومبر کی صبح کو اپنی دکانوں کے گرا دینے کے بارے میں پتا چلا۔

محمد سراج بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے جن کے علم میں نہیں تھا کہ ان کی دکان بھی گرائی جائے گی۔
’جب میں نے باقی دکانداروں کے ساتھ مل کر شور مچایا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ عمارت اب ایک تاریخی ورثہ ہے اور ہمیں یہ جگہ خالی کرنے کو کہا گیا۔ اتنے سالوں میں ان کو اب جا کر ہم سے بدبو آرہی ہے۔‘

سراج بات کرتے ہوئے اپنی دکان کی طرف بار بار نظر دوڑا رہے تھے جہاں اب ملبہ اور گوشت کاٹنے کا سامان پڑا تھا اور ساتھ ہی پرانے کپڑے بکھرے پڑے تھے جن پر سے بلیاں اپنے کھانے کا سامان اکٹھا کرنے میں مصروف تھیں۔ مارکیٹ کے ساتھ لگے جالی کے دروازے سے باقی دکاندار مارکیٹ کو گرتا ہوا دیکھ رہے تھے اور کئی ایم سی اہلکاروں کے آنے پر واپس اپنی دکانوں کا رخ کر رہے تھے۔ عمارت کی چھت پر موجود بجلی کی تاریں اور پنکھے بھی اتار لیے گئے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ تاریں اب بھی آویزاں ہیں۔

دکانداروں اور کے ایم سی کے اہلکاروں کے درمیان ہر پانچ سے چھ منٹ بعد ایک بحث چھڑ رہی تھی، کبھی بچا ہوا سامان اٹھانے پر تو کبھی مارکیٹ کے اندر دکانداروں کے ہجوم کو وہاں سے باہر جانے کا کہنے پر۔

سراج نے کہا کہ اس وقت ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ ان کو دوسری دکان ملے گی بھی یا نہیں۔ ’مجھے اب تک اہلکاروں نے کچھ نہیں بتایا لیکن میں پوچھتا رہوں گا کیونکہ میرے بیٹے نہیں ہیں، اور مجھے گھر جانے سے پہلے یہ سوچ کر جانا ہوگا کہ گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔‘
اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں موجود تجاوزات کی جگہ پارک بنایا جائے گا۔ لیکن کراچی میں کئی بار اس قسم کی مہم شروع ہونے کے بعد دم توڑ جاتی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور محقق، اختر بلوچ نے اس بارے میں بتایا کہ اگر یہ کام صحیح طریقے سے مکمل کیا جائے تو اس طرح کے منصوبوں کی پائیداری پر سوال نہیں اٹھیں گے۔ ’انہی محکموں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ڈی جے سائنس کالج کے پاس فری میسن ہال کی تزئین و آرائش کا کام کیا تھا۔ اسی طرح باقی عمارات بھی ہیں جن پر کام کیا جا سکتا ہے جیسے کہ ڈینسو ہال۔ لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا کہ اس تعمیر و تزئین کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری کا بھی حل نکالا جائے۔‘