کیوں نسل در نسل عثمانی سلطانوں نے اپنے کئی بھائیوں کو سر عام قتل کر دیا؟؟

Image

دنیا کی تاریخ میں ہر معاشرے میں بھائیوں، باپ بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں میں تخت کے لیے قتل

سلطنت عثمانیہ کے کئی صدیوں پر محیط طویل دور(جس میں اس نے یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بڑے حصے پر حکومت کی اور دور رس اثرات بھی چھوڑے) اسی سلطنت کے مختلف کردار ان دنوں کئی ٹی وی ڈراموں اور سیریز کا موضوع ہیں۔ان سیریز میں بلا شبہ ارطورل غازی اور عثمان غازی نے تاریخی کامیابی حاصل کی لیکن ان ہی میں ایک سیریز سلطان احمد اول اور خاص طور پر ان کی اہلیہ قُسم سلطان کی زندگی پر بنی ہے۔ اس سیریز میں سلطان احمد اپنے ارد گرد کے لوگوں اور سلطنت کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے مسلسل اپنے چھوٹے بھائی کو قتل کرنے کے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ہر معاشرے میں بھائیوں، باپ بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں میں تخت کے لیے قتل اور جنگوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ تو سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں اس طرح کے واقعات کی کیا مثالیں ہیں؟؟

کیوں نسل در نسل عثمانی سلطانوں نے اپنے کئی بھائیوں کو سر عام قتل کر دیا؟؟

 اس بارے میں آج ہم آپ کو ایسے ہوشربا حقائق بتائیں گے جنہیں سن کر آپ کا دماغ سن ہو جائے گا۔۔۔اور پھر بھائیوں کو قتل کرنے کی روایت پر آپ کے سامنے بھی نہایت اہم صورتحال رکھیں گے۔۔۔

تو ناظرین سال پندرہ سو پچانوے کا ایک تاریخی منظر نامہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اس وقت کی سپر پاور کا اقتدار سلطان مراد سوم کے انتقال پر ان کے بیٹے محمت کو مل چکا ہے جو اب سلطان محمت سوم ہیں۔

لیکن اس دن کو تاریخ میں جس وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے وہ شاید استنبول میں شاہی محل میں نئے سلطان کی آمد سے زیادہ وہاں سے انیس شہزادوں کے جنازوں کا نکلنا تھا۔ یہ جنازے نئے سلطان محمت سوم کے بھائیوں کے تھے جنھیں سلطنت میں اس وقت رائج بھائیوں کے قتل کی شاہی روایت کے تحت نئے سلطان کے تخت پر بیٹھتے ہی باری باری گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا-

سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی کتابLord of the horizon(جس کا اردو میں مطلب مشرق اور مغرب کے آقا کے ہیں) اس میں مصنف جیسن گڈوِن نے تاریخ کے مختلف ذرائع کے حوالے سے شہزادوں کی ہلاکت کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شہزادوں کو ایک ایک کر کے سلطان کے سامنے لایا گیا۔

ان میں سے عمر میں سب سے بڑے شہزادے نے جو خوبصورت اور صحت مند جسامت کا مالک تھا التجا کی کہ ’میرے آقا، میرے بھائی، جو اب میرے والد کی جگہ ہو میری زندگی اس طرح مت ختم کرو- غم سے نڈھال سلطان نے اپنی داڑھی نوچ لی لیکن جواب میں ایک لفظ نہ بولا۔

جیسن اس دن کا ذکر جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گلیوں میں یہ جنازے جاتے ہوئے دیکھ کر استنبول کے شہریوں کے دل ہل گئے تھے۔

ایک اور مؤرخ لیسلی پی پیئرس نے اپنی کتاب میں اس زمانے میں تیار کی گئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے کہ سلطان مراد سوم کے جنازے کے ایک روز بعد ہی ان کے انیس شہزادوں کے جنازوں کے موقع پر استنبول کے شہریوں کی دوگنی تعداد باہر آئی تھی اور ’ہر آنکھ اشکبار تھی۔

سال پندرہ سو پچانوے  سے اکیس برس پیچھے جائیں تو معلوم ہو گا کہ سلطان محمت سوئم کے والد سلطان مراد سوئم کی حکمرانی کا پہلا دن بھی مختلف نھیں تھا اور انھیں بھی ایسا ہی مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سلطان مراد کے والد سلطنت عثمانیہ کے گیارہویں سلطان سلیم دوئم کا  سال پندرہ سو چوہتر  میں پچاس  برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ (اس سال سلطنت عثمانیہ نے شمالی افریقہ میں تیونس بھی فتح کر لیا تھا۔)

سلطنت کی باگ ڈور ان کے سب سے بڑے بیٹے مراد سوئم کے ہاتھ آئی جو اپنے بعد والے بھائی سے بیس سال بڑے تھے اور ان کی جانشینی کو بظاہر کسی سے خطرہ نھیں تھا۔ لیکن پھر بھی، فنکل لکھتی ہیں، انھوں نے اپنی تخت نشینی پر اپنے سب بھائی مروا دیے اور جنھیں پھر اپنے والد سلطان سلیم دوم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

مؤرخ کیرولائن فنکل نے اپنی کتاب ’عثمان کا خواب میں  سلطان سلیم دوم کے یہودی طبیب  کے حوالے سے شہزادوں کی ہلاکت کا منظر کچھ یوں بیان کیا: ’کہ سلطان مراد نے، جو بہت رحم دل تھے اور خون بہانا برداشت نھیں کر سکتے تھے، اٹھارہ گھنٹے انتظار کیا، اس دوران وہ تخت پر بیٹھے اور نہ ہی شہر میں اپنی آمد کا اعلان کیا اور اپنے نو بھائیوں کی جان بچانے کے طریقوں پر غور کرتے رہے۔۔۔ سلطنت عثمانیہ کے قانون کی خلاف ورزی کے ڈر سے انھوں نے روتے ہوئے اپنے (خاص طور پر اس کام کے لیے تیار کیے گئے گونگے بہرے) اہلکاروں کو شہزادوں کا گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے کے لیے روانہ کر دیا اور اس کام کے لیے ان اہلکاروں کے انچارج کو اپنے ہاتھوں سے نو رومال دیے۔

مراد اور محمت کے بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی قبریں بتاتی ہیں کہ سلطنت میں اس افراتفری سے بچنے کی کیا قیمت ادا کی گئی جو اکثر کسی نئے سلطان کی تخت نشینی کے وقت پیدا ہوتی تھی۔

درجنوں شہزادوں اور شہزادیوں کی ان ہلاکتوں کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ شہزادوں کا مارے جانا کسی بغاوت یا کسی اور جرم کا نتیجہ نھیں تھا بلکہ ان میں سے کچھ تو غلطی کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔

جس قانون یا روایت کے تحت ان شہزادوں اور شہزادیوں کو ہلاک کیا گیا اس کی بنیاد تقریباً ایک سو سال قبل پندرہویں صدی میں سلطان محمت دوم کے دور میں رکھی گئی تھی جنھوں نے سال چودہ سو اکیاسی میں اپنی موت سے چند برس قبل ہدایت دی تھی جس کے تحت نیا سلطان اپنے بھائیوں کو ہلاک کر سکتا تھا۔

فنکل نے لکھا ہے کہ سلطان محمت دوم نے اپنا جانشیں نامزد نھیں کیا تھا لیکن انھوں نے اپنے انتقال سے کچھ سال قبل جانشینی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر دیا تھا،جس میں انھوں نے یہ کہتے ہوئے بھائیوں کو مارنے کی باقاعدہ اجازت دی کہ ان کا جو بھی بیٹا سلطان بنے وہ ٹھیک کرے گا، اگر وہ دنیا کی بہتری کے لیے باقیوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔

ترکی میں تاریخ اور قانون کے ایک استاد پروفیسر ڈاکٹر اکرم بورا اکنجے نے اس روایت کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ سلطان محمت دوم کے اپنے الفاظ میں یہ قانون ’نظام عالم` کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا اور سلطان کے مطابق ’علماء کی اکثریت اس کے حق میں ہے اس لیے اس  کے مطابق کارروائی کی جائے۔‘یعنی مورخین کے مطابق اس دور کے بیشتر علمانے بھی اس روایت کی حمایت کی تھی۔۔۔

ڈاکٹر اکنجے لکھتے ہیں کہ ’بے شک، بھائیوں کے قتل کا قانون عثمانوی تاریخ کے سب سے متنازع موضوعات میں سے ایک ہے۔۔۔سلطنت کی تاریخ میں کئی بار اس طرح کے واقعات ہوئے جن میں سے زیادہ تر کو جائز سمجھا گیا لیکن کچھ ہلاکتیں /قتل ایسے بھی ہوئے جنھیں غلط سمجھا گیا اور تنقید کی گئی۔

انھوں نے مزید لکھا کہ کسی شہزادے کے مارے جانے کے لیے اس کا کچھ غلط کرنا ضروری نھیں تھا اور کئی بار صرف اس خطرے کی بنیاد پر ہلاکت کو جائز سمجھا گیا کہ وہ شہزادہ/شہزادے مستقبل میں بغاوت کر سکتے ہیں۔یعنی در حققت بغاوت کے ڈر سے ہی شہزادوں کی قتل کی روایت قائم ہوئی تھی۔۔۔

لیکن سلطان محمت دوم نے اس قانون کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہم ایک واقعے کی مدد لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عثمانوی سلطنت کی تاریخ میں تقریباً ستر برس مزید پیچھے جانا ہو گا جب جون چودہ سو دو میں انقرہ کے قریب عثمانوی حکمران سلطان بایزید اور سلطان تیمور (تیمور لنگ) کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوئی۔

کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ تیمور لنگ جب اپنے گھر سے جنگی مہمات پر روانہ ہوئے تو اس کے تیس برس کے بعد وہ چین اور ایران سے ہوتے ہوئے اناطولیہ میں عثمانوی سلطانوں کے علاقے تک پہنچے۔

فنکل کہتی ہیں کہ تیمور لنگ اپنے آپ کو چنگیز خان کا وارث سمجھتے تھے اور اسی بنیاد پر ان کے خیال میں اناطولیہ سلجوق منگول علاقوں پر ان کا حق تھا۔ انھوں نے اناطولیہ کی مختلف ریاستوں (جو اس وقت تک عثمانی سلطانوں کے زیر اثر نھیں آئی تھیں) کے درمیان اختلافات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن عثمانوی سلطان بایزید کی نظر بھی انھیں ریاستوں پر تھی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تیمور لنگ اور بایزید کی فوجیں اٹھائیس جون چودہ سو دو کو انقرہ کے قریب آمنے سامنے آ گئیں۔ اس جنگ میں سلطان بیزید کو شکست ہوئی اور وہ اس کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہے۔ ان کی ہلاکت کیسے ہوئی؟ اس کے بارے میں مورخین کے مطابق کئی آراہ ہیں۔

لیکن آج کے موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ان واقعات کے بعد سلطنت عثمانیہ ایک مشکل دور میں داخل ہو گئی۔ اگلے بیس برس تک سلطنت عثمانیہ کو خانہ جنگی کی وجہ سے شدید تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر اکنجے لکھتے ہیں کہ بایزید اول کے چاروں بیٹوں کے اپنے اپنے ہزاروں حامی تھے اور وہ برسوں تک آپس میں لڑتے رہے۔

خانہ جنگی کے آخر میں سلطان کا سب سے چھوٹا بیٹا محمت اول اپنے بھائیوں کو شکست دے کر چودہ سو تیرہ  میں سلطنت عثمانیہ کا واحد وارث بنا۔

سلطان محمت اول کو سلطنت عثمانیہ کو اپنے والد سلطان بایزید کی دور میں جو حدود تھیں ان تک بحال کرنے کے لیے مزید کئی سال جدوجہد کرنی پڑی۔

اسی دوران نئے سلطان اور تیمور لنگ(جو وفات پا چکے تھے) کے بیٹے شاہ رخ کے درمیان خطوں کے ذریعے ایک دلچسپ مقالمہ ہوا جو ہمارے آج کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے۔ کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ چودہ سو سولہ میں شاہ رخ نے سلطان محمت اول کو خط لکھا اور اپنے بھائیوں کو ہلاک کرنے پر احتجاج کیا تو عثمانوی سلطان کا جواب تھا کہ ’ایک ملک میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے۔۔۔ ہمارے دشمن جنھوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلطان بایزید خود اپنے بھائی ’کو ہلاک کروانے‘ کے بعد تخت پر بیٹھے تھے۔ سال تیرہ سو نواسی میں سلطنت عثمانیہ کے تیسرے سلطان مراد اول سربیا کے خلاف جنگ کے دوران چل بسے  تھے۔ اس موقع پر شہزادے بایزید نے اپنے بھائی کو مروا کر سلطنت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔

فنکل لکھتی ہیں کہ شہزادے بایزید کے ہاتھوں ان کے بھائی شہزادہ یعقوب کا قتل ’عثمانی خاندان میں بھائی کا پہلا قتل ہے جس کا ریکارڈ موجود ہے۔

تاہم انھوں نے مزید لکھا کہ یہ واضح نھیں کہ یہ قتل وہیں میدان جنگ میں اپنے والد کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی انھوں نے کروا دیا تھا یا چند ماہ بعد کیا گیا۔ تاہم عثمانی یہ جنگ جیت گئے تھے اور سربیا ان کی تابع ریاست بن گئی تھی۔

اب ترکوں میں ایک سردار یا سلطان کے جانے کے بعد جانشینی کی روایت پر بھی کچھ بات کرتے ہیں جو آپ کی معلومات میں مزید اضافہ کرے گی۔۔۔

ترکوں میں جانشینی کی روایت کے بارے میں جیسن گڈوِن اپنی کتاب ’مغرب اور مشرق کے آقا‘ میں لکھتے ہیں کہ ابتدا میں عثمانی سلطنت میں اقتدار خاندان کا مسئلہ ہوتا تھا جس میں بھائی، چچا، کزن اور کئی بار خاتون رشتہ دار بھی کسی حد تک حصہ دار ہوتے تھے۔ یہ صورتحال دنیا کی ان سلطنتوں سے مختلف تھی جہاں اقتدار پر صرف بڑے بیٹے کا حق ہوتا ہے۔

اس صورتحال میں کسی بھائی کا سلطان کے خلاف بغاوت یا سازش کرنا ضروری نھیں تھا بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ سلطنت کے طاقتور حلقے سلطان سے ناخوش ہو کر کسی بھی دوسرے شہزادے کو سلطان بنانے کی کوشش میں لگ جاتے۔

ڈاکٹر اکرم اکنجے نے اپنے مضمون میں آسٹریا کے ایک سفیر کے تاثرات کا ذکر کیا جو سلطان سلیمان اول کے دور میں وہاں موجود تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ عثمانوی سلطان کا بیٹا ہونا کوئی خوش نصیبی نھیں ہے کیونکہ ان میں سے ایک جب سلطان بن جاتا ہے تو باقیوں کے لیے موت کا انتظار ہی رہ جاتا ہے۔ اگر سلطان کے بھائی زندہ ہوں تو فوج کے سلطان سے تقاضے ہی ختم نھیں ہوتے اور سلطان اگر ان کی بات نھیں مانتا تو وہ کہہ دیتے ہیں خدا تمہارے بھائی کو سلامت رکھے، جس کا مطلب یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ اسے بھی تخت پر بٹھا سکتے ہیں۔

خیر ابھی ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس تاریک روایت کا خاتمہ کیسے ممکن ہوا۔۔۔

لیسلی پیئرس نے لکھا ہے کہ شاہی خاندان میں بھائیوں کو ہلاک کروانے کی روایت غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی۔ ’شروع میں اس روایت کو اقتدار کی وحدانیت برقرار رکھنے کے لیے برداشت کیا گیا تاکہ حکمران کو کسی چیلنج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘کیونکہ ابتدا میں جب سلطنت عثمانیہ پھیل رہی تھی اور سلطان خود طویل عرصے کے لیے دارالحکومت سے دور مہمات پر جاتے تھے، لوگوں کو اس وقت یہ روایت ٹھیک لگتی ہو گی لیکن ’سلطان سلیمان کے دور کے بعد کم عمر لڑکے اور بچے جو ابھی گود میں تھے اس روایت کا نشانہ بنے اور اکثر ایسے سلطانوں کو بچانے کے لیے جو بہت کم دارالحکومت سے باہر جاتے تھے۔ سال پندرہ سو چوہتر تک تو استنبول کے عوام نے شہزادوں کی ہلاکت کا یہ ڈرامہ اپنے سامنے دیکھا ہی نھیں تھا۔

مؤرخ پیئرس لکھتی ہیں ’کسی نئے سلطان کے سب بھائیوں کا ایک ساتھ مارے جانا اور محل سے ایک ساتھ جنازوں کا نکلنا جن میں سے کچھ بہت ہی چھوٹے تھے دیکھ کر لوگوں کو لگا ہو گا کہ یہ سب پرانے زمانے کے لیے تھا۔

محمت سوم کے بعد سلطان احمد اول تخت نشین ہوئے لیکن انھوں نے اپنے بھائی کو دباؤ کے باوجود ہلاک نھیں کروایا لیکن یہ روایت اس وقت مکمل طور پر ختم نھیں ہوئی۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان احمد اول کے سات بیٹوں میں سے چار ان کے تخت پر بیٹھنے والے دو بیٹوں سلطان عثمان دوم اور سلطان مراد چہارم کے حکم پر مارے گئے۔

ڈاکٹر اکرم نے لکھا کہ جب سلطان احمد اول کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ ان کا بھائی تخت نشین ہوا حالانکہ ان کے بیٹے موجود تھے۔ ’یہ پہلا موقع تھا کہ ایک سلطان کی موت کے بعد ان کی جگہ ان کے بھائی نے لی اور  پھر اس کے بعد یہ روایت دم توڑتی گئی اور بلآخر عوامی دباو کے باعث بھی اس کا خاتمہ ہو گیا۔۔۔

ناظرین عثمانی سلطنت کی اس رویت پر ہمیں آپ بھی اپنی رائے دیجئے گا کہ تخت کے حصول کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کر دینا درست عمل ہے یا غلط عمل ہے؟؟

ہمیں اس تاریخی روایت پر اپنی رائے ضرور دیجئے گا اور اسی کے ساتھ ویڈیو کو لائک کرنا سوشیو آن ایپ ڈاون لوڈ کرنا بالکل مت بھولئے گا۔۔۔پھر سے حاضر ہوں گے۔۔۔

محمد اویس مصری محمد اویس مصری

الیکشن کمیشن نے پیش نہ ھونے پر عمران خان کو نوٹس جاری کر دیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی رولز کی خلاف ورزی کرنے پر سابق وزیراعظم و چیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو نوٹس جاری کر دیا۔

امریکی سینیٹر جان کیری اور وزیراعظم شھباز شریف میں ملاقات۔

امریکی سینیٹر جان کیری اور وزیراعظم پاکستان محمد شھباز شریف کی وفد کے ہمراہ ملاقات

سی سی پی او لاھور تبادلہ کے معاملے پر وفاق اور پنجاب آمنے سامنے آ گئے۔

وفاق نے کیپیٹل چیف پولیس آفیسر غلام محمود ڈوگر کو وفاقی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا حکم دیا لیکن پنجاب سامنے آ گیا۔

چکوال جلسے سے واپسی پر عمران خان کے ہیلی کاپٹر پائیلٹ کی طبیعت بگڑنے پر شبلی فراز پائیلٹ بن گئے۔

عمران خان چکوال جلسے سے واپس آ رھے تھے کہ اچانک ان کے بجلی کاپٹر کے معاون پائیلٹ کی طبیعت بگڑ گئی جس پر شبلی فراز نے معاون پائیلٹ کا...

وزیراعظم شہباز شریف کا 21 ستمبر کو امریکی صدر کے عشائیے میں شرکت شیڈول۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اس وقت لندن اور امریکہ کے دورے پر ھیں۔

چالیس ارب کی سرمایہ کاری سے راوی اربن سٹی پراجیکٹ پر کام تیزی سے جاری ھے۔

عمران خان کا کہنا ھے کہ اسوقت لاھور میں نیا جدید سمارٹ سٹی راوی اربن سٹی پراجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ھے

عمران خان کیخلاف دھشتگردی کی دفعات کو ختم کرنے کا حکم۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کیخلاف ججز دھمکی کیس میں شامل دہشتگردی کی دفعات کو نکال دیا اور مقدمہ سیشن کورٹ میں چلانے کا حکم دے دیا۔

رانا شمیم ایک بار پھر اپنے بیان سے منحرف عدالت سے دوبارہ غیر مشروط معافی مانگ لی

گلگت بلتستان کی سپریم اپیلٹ کورٹ کے چیف جج رانا سمیم نے ایک بار اپنے حلفیہ بیان سے منحرف ہو کر عدالت سے معافی مانگ لی