وطن کی مٹی بھی عجب چیز ھے جو بظاھر سانس لیتی تو نظر نھیں آتی لیکن اپنے وجود پر چلتی سانسوں کو اپنے اندر سمو لیتی ھے بس فرق اتنا رہ جاتا ھے کہ کچھ سانسیں اپنی ترتیب سے وطن کی مٹی میں سمو جاتی ھیں اور کچھ سانسیں اسی وطن کی مٹی کی محبت و تحفظ میں اسی وطن کی مٹی میں سمو جاتی ھیں۔
وطن کی مٹی بھی عجب چیز ھے جو بظاھر سانس لیتی تو نظر نھیں آتی لیکن اپنے وجود پر چلتی سانسوں کو اپنے اندر سمو لیتی ھے بس فرق اتنا رہ جاتا ھے کہ کچھ سانسیں اپنی ترتیب سے وطن کی مٹی میں سمو جاتی ھیں اور کچھ سانسیں اسی وطن کی مٹی کی محبت و تحفظ میں اسی وطن کی مٹی میں سمو جاتی ھیں۔۔۔
یقین مانیں جان تو سب کو پیاری ھے کون کم بخت کہے گا مجھ سے میری سانسیں چھین لو لیکن یہ کیسے مسافر ھیں جو خود چل کر اپنی جانیں قربان کرتے ھیں جنھیں یہ بھی پتہ ھے کہ ھم جس راہ پر چل نکلے ھیں یہ راہ عیاشی و سکون نھیں دے گی بلکہ سانسوں کی بندش کا سبب ضرور بنے گی۔۔۔
یہ کیسے مسافر ھیں جنھیں یہ بھی پتہ ھے کہ ھم جن سنگلاخ پہاڑوں کی چوٹیوں پر تن تنہا ٹھہرے ھیں یہ چوٹیاں ھماری موت کا سامان بھی بن سکتی ھیں جانے کب کہاں سے کوئی اندھی گولی، کوئی راکٹ لانچر آئے اور ھمارے وجود کے آر پار نکل جائے۔۔۔
کیا یہ مسافر بے وقوف ھیں جو صرف تیس چالیس ھزار کی تنخواہ کیلئے اپنے ماں باپ بیوی بچوں بہن بھائی نئی نویلی دلھن جس کے ھاتھوں کی مہندی بھی نھیں اتری ھوتی انھیں پیچھے چھوڑ کر خود ایسا رخت سفر باندھتے ھیں جو کبھی ان کی سانسوں کی ضمانت بھی نھیں دیتا۔۔۔
حوالدار یونس بھی انھی مسافروں میں سے ایک تھا اسے بھی اپنے ماں باپ سے اتنی ھی محبت تھی جتنی آج مجھے اور آپ کو اپنے ماں باپ سے ھے حوالدار یونس کو بھی اپنی بہنیں ویسی ھی پیاری تھیں جیسی ھمیں ھیں لیکن وقت کی ستم ظریفی کہ حوالدار یونس اپنے بوڑھے ماں کا واحد سہارہ تو تھا ھی لیکن اپنی سات بہنوں کا اکلوتا بھائی بھی تھا۔۔۔
حوالدار یونس ریاست سے لاکھوں روپے نھیں لیتا تھا، نا ھی وہ ٹھنڈے اے سی کے کمروں میں بیٹھ کر منرل واٹر کی بوتلیں سامنے رکھ کر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ملکی حالات پر تبصرے کرتا تھا بلکہ اس نے اپنے وطن کی مٹی کا قرض چکانے کا فیصلہ اس انداز میں کیا کہ اپنی جان ھی قربان کر بیٹھا۔۔۔
اسکی ماں کو بھی تسلی دی گئی ھو گی کہ آپ کا بیٹا تو شھید ھے لیکن اس ماں سے پوچھو جس کا ایک لخت جگر وطن کی خاطر وطن کی مٹی میں سمو گیا۔۔۔!!!
اسکی بہنوں نے بھی خود کو بتلایا ھو گا کہ پگلی روتی کیوں ھو تمھارا تو بھائی وطن پر قربان ھو گیا شھادت کا مقام پا گیا لیکن کوئی ان سے ان کا درد تو پوچھے جنھوں نے اپنا اکلوتا بھائی کھو دیا۔۔۔!!!
وطن کی مٹی بھی عجب چیز ھے اپنی آبیاری کیلئے اکلوتے بیٹے اور اکلوتے بھائیوں کی تمنا کر بیٹھتی ھے عجب چاھت ھے اس وطن کی مٹی کی جو ایک رات، ایک ھفتہ ایک مہینہ پہلے کی سہاگن کو بیوہ بنا دیتی ھے۔۔۔
لیکن یقین مانیں یہ چاھت بھی نصیب والوں کے حصے میں آتی ھے وطن کی مٹی کی یہ چاھت ھی تو ھے جسکی قیمت آج تک ھزاروں نوجوان اپنی ماؤں کے اکلوتے بیٹے، بوڑھے باپ کا واحد سہارہ اور بہنوں کے واحد بھائی ادا کر رھے ھیں اور ادا کرتے رھیں گے اور اففف تک بھی نہ کریں گے لیکن۔۔۔۔۔
لیکن کچھ ناداں سمجھتے ھیں کہ اب ھم نے تاریخ بدل دی ھے اب مزید حوالدار یونس نھیں آئیں گے۔۔۔!!!
اب دوبارہ یوں بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر یہ نظر نھیں آئیں گے۔۔۔!!!
اب یہ کلمہ پڑھتے قران کی تلاوت کرتے خوشی سے اپنے سینوں پر گولیاں و راکٹ لانچر نھیں کھائیں گے۔۔۔!!!
اب ان کے پیاروں میں وہ حوصلہ نہ رھے گا کہ یہ مسجدوں کے سپیکروں سے ان کیلئے صدائے تکبیر بلند کریں کیونکہ۔۔۔!!!
کیونکہ اب ھم نے انھیں وہ زخم دیا جو یہ ھمیشہ یاد رکھیں گے لیکن یہ کس نے مردے گھوڑوں میں جان ڈال دی، گھونگرو باندھے نازلی کو نماز یاد دلا دی گھر میں بوڑھے باپ کے حوصلے کو بلند کر دیا۔۔۔
یہ کون ظالم عورتیں ھیں، یہ بانجھ کیوں نہ ھو جاتیں یہ مر کیوں نہ جاتیں جنہوں نے پاکستان میں حوالدار یونس جیسے سپوت پیدا کر دئیے۔۔۔
لیکن تم ھار گئے شکست خوردہ ھو گئے پتہ ھے کیوں؟؟؟
کیونکہ ھمارے پاس ایسی مائیں ھیں جو حوالدار یونس جیسے سپوت پیدا کرتی ھیں، ایسی بہنیں ھیں جو اپنے اکلوتے بھائی قربان کرتی ھیں، ایسے باپ ھیں جو بڑھاپے میں بھی جوان جنازے کو کندھا دے سکتے ھیں۔۔۔
صہیب بلوچ