کیا واقعی ایک دفعہ گزرنے والا وقت پھر لوٹ کر نہیں آئے گا؟

وقت ایک بہتے دھارے کی مانند ہے اور ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ "گیا وقت واپس نہیں آتا" تو کیا واقعی ایک دفعہ گزرنے کے بعد وقت پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا؟

کیا ہم وقت کے اس سمندر میں ایک مخصوص رفتار سے مستقبل کی طرف ہی بڑھ سکتے ہیں؟ یا پھر یہ ایک کمرے کی طرح ہے جس کے دَر ماضی اور مستقبل دونوں میں کُھلتے ہیں؟

ساتویں صدی عیسویں سے پہلے انسان کو وقت کی اہمیت تو کیا وقت کے بارے میں بھی نہیں پتا تھا۔ پھر ساتویں صدی کے قریب انسان نے "دھوپ گھڑی" بنائی اور وقت کی پیمائش کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ گھڑیوں میں جدّت آتی گئی۔ مشہور فرانسیسی سائنسدان نیوٹن نے یہ کہا کہ "پوری کائنات کا ایک ہی وقت ہے اس لئے آپ کہیں بھی چلے جائیں، وقت میں فرق نہیں پڑے گا" لیکن بیسویں صدی میں ایک اور سائنسدان آئن سٹائن آیا اور اس نے "نظریہ اضافت" پیش کیا۔

1910 میں آئن سٹائن کا نظریہ اضافت شائع ہوا جس کے مطابق "پوری کائنات کا وقت ایک نہیں ہے بلکہ چند عوامل کی وجہ سے وقت رک بھی جاتا ہے"۔ دنیا کو یہ بات غیر حقیقی لگی کیوں کہ دنیا کی نظر میں تو وقت وہ چیز تھی جو ایک دفعہ نکل جائے تو واپس نہیں آتا۔ اس وجہ سے دنیا نے آ