کرائے کی بندوق

آج کل پاکستان کی سیاست میں یوٹرن پر بڑی بحث ہو رہی ہے۔ یوٹرن تو بہت سے سیاستدان لیتے ہیں لیکن عمران خان کے یوٹرن ہماری نظروں میں زیادہ کھٹکتے ہیں کیونکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں اور یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کہ اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو دیوار میں ٹکر مارنے کے بجائے یوٹرن لے کر قوم کو حادثے سے بچا لیتا ہے۔ آج مجھے بھی عمران خان کو ایک معاملے پر یوٹرن لینے کی گزارش کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت مجھ سے اختلاف نہیں بلکہ اتفاق کرے گی۔ عمران خان کو یوٹرن لینے کی گزارش کا خیال اُن کا ایک حالیہ انٹرویو سن کر آیا۔ ترکی کے حالیہ دورے کے دوران اُنہوں نے ٹی آر ٹی کے عمران گاردا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں امریکہ نے پاکستان کو کرائے کی بندوق کے طور پر استعمال کیا لیکن اب ہم کرائے کی بندوق کے طور پر مزید استعمال ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اس انٹرویو میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیدا ہونے والی سیاسی و سماجی خرابیوں کا بھی ذکر کیا۔ اس سے قبل وہ دسمبر 2018ء میں واشنگٹن پوسٹ کو دیئے جانے والے انٹرویو میں بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اب ہم دوبارہ امریکہ کے لئے کرائے کی بندوق نہیں بنیں گے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس انٹرویو کی ہیڈ لائن کچھ اس طرح لگائی ’’ہم تمہاری کرائے کی بندوق نہیں رہے، پاکستانی لیڈر کا امریکہ کو پیغام‘‘۔

واشنگٹن پوسٹ کی لالی وے مائوتھ کو دیا جانے والا یہ انٹرویو پاکستانی عوام کی بڑی اکثریت کے خیالات کی ترجمانی کر رہا تھا لیکن آگے چل کر اسی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان ترقی کی مثال بن گیا تھا۔ عمران خان ایک سے زائد بار ساٹھ کی دہائی کو ترقی کا دور قرار دے چکے ہیں۔ وہ جب بھی ساٹھ کی دہائی کا ذکر کرتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے جنرل ایوب خان کی تصویر گھومنے لگتی ہے جو 1958ء سے 1969ء تک پاکستان کے حکمران تھے۔ جنرل ایوب خان پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر تھے جنہوں نے 1956ء کا پارلیمانی آئین منسوخ کر کے 1962ء میں صدارتی آئین نافذ کیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں نافذ کئے گئے صدارتی نظام نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے رشتے کو کمزور کیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے گئے اس لئے یہ ترقی کا دور تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ایوب خان نے 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعہ پاکستان کے تین دریائوں راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے کنٹرول میں دیدیا۔ ان دریائوں کا پانی بھارت کے کنٹرول میں جانے سے پاکستان کو پانی کی کمی کے بحران کا سامنا تھا لہٰذا زرعی استعمال کے لئے دریائے سندھ اور جہلم کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے بنائے گئے جن میں تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم بھی شامل تھے۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجے میں آج بھی پاکستان کو جہلم اور چناب کے پانی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جس دور کو ترقی کا دور کہا جاتا ہے اُس دور کی تصویر دیکھنا ہو تو عمران خان راوی، ستلج اور بیاس کو دیکھ لیں جو دریائوں کے بجائے گندے نالے بن چکے ہیں۔

عمران خان جب بھی ساٹھ کی دہائی کو ترقی کی دہائی قرار دیتے ہیں تو یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید وہ بلاواسطہ پاکستان میں صدارتی نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس ’’بدگمانی‘‘ کی وجہ اُن کے کچھ قریبی ساتھیوں کی طرف سے نجی گفتگوئوں میں پارلیمانی نظام کی مخالفت اور کچھ وزراء کی طرف سے کھلے عام 18ویں ترمیم کے خلاف رونا دھونا ہے۔ اس ’’بدگمانی‘‘ کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ میں خود اپنے گناہ گار کانوں سے احمد شجاع پاشا (آئی ایس آئی کے سابق سربراہ) کی زبانی یہ سُن چکا ہوں کہ پاکستان اور پارلیمانی نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنی اگلی نسل کو بلاول اور حمزہ شہباز کا غلام نہیں بننے دیں گے اور پھر اس ناچیز نے اُن کے ساتھ اختلاف رائے کے سنگین نتائج بھی بھگتے۔ عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ ساٹھ کی دہائی کے بارے میں اپنے موقف پر نظرثانی کریں کیونکہ اس دہائی کی تعریف کا مطلب جنرل ایوب خان کی تعریف ہے اور جنرل ایوب خان کی تعریف کا مطلب صدارتی نظام کی تعریف ہے اور میری ناچیز رائے میں صدارتی نظام کی حمایت کا مطلب پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔

ساٹھ کی دہائی ترقی کی دہائی ہوتی تو یہ ترقی صرف مغربی پاکستان میں نہیں بلکہ مشرقی پاکستان میں بھی نظر آتی جو اب بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ جنرل ایوب خان نے ایک طرف بنگالیوں کو ان کے حقوق نہ دیئےتو دوسری طرف بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا۔ اُنہوں نے قائد اعظمؒ کے ساتھی اور تحریک پاکستان کے رہنما حسین شہید سہروردی پر غداری کا مقدمہ بنا کر اُنہیں جیل میں ڈال دیا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد منیر کو ایوب خان نے اپنا وزیر قانون بنایا۔ جسٹس منیر اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء‘‘