اب باری ہے زرداری کی

اپریل کا مہینہ تھا۔ زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ لگاکر لاڈلا بننے میں مصروف تھے ۔وہ نوازشریف کو آئوٹ کرنے کے ایجنڈے میں بنیادی کردار ادا کررہے تھے ۔ میاں نوازشریف سے ان کی شکایات جائز تھیں لیکن جن کے لئے وہ استعمال ہورہے تھے انہوں نے بھی کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا ۔ ان کے چاہنے والے بھی ایک زرداری سب پہ بھاری کے نعرے سے دلوں کو بہلاتے ہوئے مطمئن تھے کہ زرداری صاحب انتخابات میں ایسی چال چلیں گے کہ سب جیالوں کی ایک بار پھر دال گل جائے گی ۔ معاملہ اس حد تک جا پہنچا تھا کہ زرداری صاحب جے آئی ٹی میں ذکر شدہ مدات سے اربوں روپے خرچ کرکے اسکرپٹ کے مطابق سینیٹ انتخابات میں خریداری کرکے رضاربانی جیسے سیاسی ہیرے کو آئوٹ جبکہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوا رہے تھے ۔ اسی لہر میں انہوں نے اور ان کی جماعت نے میاں نوازشریف کے خلاف جے آئی ٹی کی تشکیل کے عمل کو سراہا اور ان کے خلاف عدالتی فیصلوں پر بھنگڑے ڈالے ۔ اسی سلسلے میں انہوں نے بلاول اور ان کی سوچ کو دبا کے رکھا اور انتخابات کو سند جواز فراہم کیا۔ انتخابات کے بعد جب پہلی اے پی سی کا انعقاد ہوا تو مولانا فضل الرحمان، اسفندیار ولی خان ، محمود خان اچکزئی ، حاصل بزنجو ، فاروق ستار اور حتیٰ کہ مصطفیٰ کمال بھی انتخابی نتائج تسلیم کرنے اور اسمبلیوں میں بیٹھنے کوتیار نہیں تھے لیکن زرداری صاحب نے ان کو خاموش رہنے پر مجبور کیا اور مسلم لیگ (ن) کو اسمبلیوں کی راہ دکھائی ۔ لاڈلے بننے کی اس مشق میں آصف علی زرداری نے زندگی میں پہلی بار مولانا فضل الرحمان جیسے یار کو بھی ناراض کیا ۔ وزیراعظم کے انتخاب میں اپنے وعدے سے مکر گئے اور ایوان صدر بھی پی ٹی آئی کے سپرد کیا ۔ تابعداری کی اس مشق میں وہ اس حد تک گئے کہ ایک مشکوک اور گرتے ہوئے لاڈلے ٹی وی چینل پر پرویز مشرف کی صف میں کھڑے ہوکر پروگرام کرنے پر بھی آمادہ ہوئے ۔جب زرداری صاحب اپنی دانائی کے زعم میں مبتلا ہوکرپیپلز پارٹی کے نظریے کا جنازہ نکالتے ہوئے اینٹ سے اینٹ لگانے کی مشق میں مگن تھے تو ہم جیسے چند ادنیٰ طالب علم ان سے عرض کررہے تھے کہ لاڈلا بننے کی کوشش میں وہ جس طرح پیپلز پارٹی کے نظریاتی تشخص کو مجروح کررہے ہیں اس کا نتیجہ خود ان کی ذات کے حق میں بھی اچھا نہیں نکلے گا ۔ آج سے آٹھ ماہ قبل یعنی 4 اپریل 2018ء کو روزنامہ جنگ کے اسی صفحے پر ’’باری باری ۔ سب کی باری‘‘ کے زیرعنوان میرا جو کالم شائع ہوا ، اس کے الفاظ یوں تھے کہ :

’’گائوں کےبڑے صاحب ایک روز خربوزوں کے باغ کے معائنے کے لئے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیک وقت تین چور باغ پر ٹوٹ پڑے ہیں اور خربوزے کاٹ کر بوریوں میں ڈال رہے ہیں۔ وہ قریب گئے تو دیکھا کہ ایک چور ان کے سگے چچازاد بھائی ہیں ، دوسرے ان کے پڑوسی اور تیسرے باہرسے آئے ہوئے ان کے کوئی مہمان ۔ وہ غصے سے لال پیلے ہورہے تھے لیکن سوچا کہ اب اگر بیک وقت تینوں سے الجھیں گے تو الٹا مار ان کو پڑے گی ۔ چنانچہ طاقت کے باوجود حکمت سے کام لیا۔ انہوں نے چوروں میں پھوٹ ڈالنے کا طریقہ نکالا۔ مہمان چور کو مخاطب کرکے کہا کہ جناب یہ ایک تو میرے چچازاد بھائی جبکہ دوسرے بھائیوں جیسے پڑوسی ہیں ۔ میرے مال میں ان دونوں کا حق ہے ۔ وہ اگر خربوزے کاٹ کرلے جارہے ہیں تو ان کا تو حق ہے لیکن تم باہر سے آکر کیوں میرا مال چوری کررہے ہو۔ چچا زاد اور پڑوسی نے سوچا کہ وہ دونوں تو بچ رہے ہیں چنانچہ وفاداری تبدیل کرلی ۔ یوں موقع غنیمت جان کر بڑےصاحب نے مہمان چور کی خوب دھلائی کی ۔ اس دوران چچازاد اور پڑوسی چور کاٹے ہوئے خربوزوں سے مستفید ہوکر اپنے ساتھی مہمان چور کی دھلائی کا تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ مہمان چور سے فارغ ہونے کے بعد صاحب پڑوسی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ جناب یہ تو میرے چچازاد ہیں ۔ میرا مال ان کا اپنامال ہے لیکن تم کس کھاتے میں میرے مال کو غنیمت جان کر چوری کررہے تھے ۔ یوں وہ پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی خوب پٹائی کردی ۔ اس دوران چچا زاد نہ صرف تماشہ دیکھ رہا تھا بلکہ پڑوسی کی دھلائی میں صاحب کا ہاتھ بھی بٹارہا تھا۔ آخر میں بڑے صاحب چچا زاد کی طرف متوجہ ہوئے ۔ انہیں گریبان سے پکڑ کرکہنے لگے کہ بے غیرت انسان بجائے اس کے تم میرے مال کی رکھوالی کرتے ، الٹا تم دشمنوں کا ساتھ دے کر اس کی چوری میں لگے ہوئے ہو ۔تم تو زندہ چھوڑنے کے قابل نہیں ہو اور پھر ان کی پہلے دو سے بڑھ کر خوب پٹائی کی ‘‘ ۔

یہ کہانی میرے دوست حسین شاہ یوسف زئی نے کسی وقت ایک اور حوالے سے سنائی تھی لیکن ان دنوں مجھے بار بار یاد یوں آتی ہے کہ غور سے دیکھا جائے تو پاکستان کے بعض طاقتور حلقے کچھ عرصےسے اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ اپنے آپ کو باغ کا رکھوالا سمجھتے ہیں۔ اب تو کسی حد تک مالک بھی سمجھنے لگےہیں اور ان کا خیال ہے سویلین ادارے اس باغ کے خربوزے چوری