ایم ٹی آئی ایکٹ اور ہیلتھ کارڈ

ایم ٹی آئی ایکٹ اور ہیلتھ کارڈ..... مفت علاج کے نام پر ایک دھوکا......

حال ہی میں پنجاب حکومت نے ہیلتھ انصاف کارڈ شروع کیا جس کا بنیادی مقصد ایم ٹی آئی ایکٹ جیسے کالے قانون کی راہ ہموار کرنا ہے، ایم ٹی آئی ایکٹ کے مجوزہ قانون کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں ہر طرح کے طریقہ علاج پر فیسیں نافذ کی جائیں گی. اسی لئے غریب عوام کے لئے علاج مشکل ہو جائے گا تو اس کے لیے ہیلتھ کارڈ جیسا دھوکہ عوام میں بانٹا جا رہا ہے اس ہیلتھ کارڈ سسٹم کے مطابق غریب عوام کو ہر بڑے ہسپتال میں مفت علاج مہیا کیا جائے گا. کارڈ میں سات لاکھ بیس ہزار روپے موجود ہوں گے، علاج پر جتنے بھی اخراجات آئیں گے، ان کی کٹوتی ہیلتھ کارڈ میں موجود رقم سے ہو گی.
اب آتے ہیں بڑے ہی اہم پہلو کی طرف.. کہ وہ غریب کون ہو گا جس کو یہ کارڈ ملے گا.
پنجاب حکومت نے اس کی بھی تعریف وضع کر دی کہ جس کی آمدنی پندرہ ہزار سے کم ہو گی وہ غریب ہو گا اور اس کو ہی کارڈ دیا جائے گا.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب یہ بات کون طے کرے گا کہ کس کی آمدن پندرہ ہزار سے کم ہے، جواب سادہ سا ہے کہ جو ہیلتھ کارڈ تقسیم کر رہے ہوں گے، وہی یہ فیصلہ کریں گے.
اب یہ بات تو آپ سب جانتے ہیں کہ ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے والے اس علاقے کے مقامی سیاست دان ہوں گے، اور جب سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ یہ کارڈ تقسیم کریں گے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ کارڈ انہی کو ملے گا جو کہ ان سیاسی لوگوں کے قریب ہونگے.
جب سیاسی جماعتوں کے کارندوں کو ہی ہیلتھ کارڈ ملنا ہے تو پھر یہ غریب غریب کی رٹ لگا کے عوام کو پاگل بنانے کی کوشش بند ہونی چاہیے.
چلیں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہم جنت میں رہ رہے ہیں جہاں سیاسی لوگ انتہائی ایمان دار ہیں اور میرٹ پر کارڈ تقسیم ہوں گے اور صرف پندرہ ہزار سے کم آمدنی والے افراد کو ہی ملیں گے تو کیا جن کی آمدنی پندرہ ہزار سے تیس ہزار تک ہے، کیا وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے بعد یہ مہنگی فیسیں ادا کر سکیں گے؟؟؟
جواب ڈھونڈنے کے لیے آنکھیں بند کر کے اپنے دل پہ ہاتھ رکھیں، جواب مل جائے گا جو کہ یقیناً نہیں میں ہو گا.

اب ایک پہلو کی طرف آتے ہیں وہ یہ کہ ہیلتھ کارڈ میں پیسے ختم ہو گئے تو کیا ہو گا؟؟
جی جناب اصل گیم تو یہاں ہونی ہے. پیسے ختم ہونے پر آپ کو کہا جائے گا انشورنس کمپنی سے اپنی ہیلتھ انشورنس کروائیں، ہیلتھ انشورنس ہوگی تو ہی آپ کو مفت علاج ملے گا، ایک ایسا شخص جو پہلے ہی اس قابل نہیں تھا کہ اپنا علاج کرا سکے، جس کی آمدن پندرہ ہزار سے کم تھی. کیا وہ ہیلتھ انشورنس کرا سکے گا؟؟
جی جناب یہی تو وہ دھوکا ہے جو ہیلتھ کارڈ کے نام پر عوام کو دیا جارہا ہے.
ہیلتھ انشورنس سسٹم امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں تو کامیاب ہو سکتا ہے جہاں ایک شخص کی اوسط ماہانہ آمدنی پندرہ سو ڈالر کے لگ بھگ ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں غریب کو دو وقت کا کھانا مشکل سے ملتا ہو، جہاں ایک شخص کی اوسط ماہانہ آمدنی 130 ڈالر کے لگ بھگ ہو، وہاں پہ کوئی کیسے ہیلتھ انشورنس کرائے گا.

عوام کو بظاہر مفت علاج کے نام پر ایک کالے قانون کا نفاذ دراصل معلوم ہی نہیں، عوام صرف وقتی طور پر ہیلتھ کارڈ میں موجود سات لاکھ بیس ہزار روپے دیکھ رہے ہیں مگر اس کی آڑ میں جو ظلم ان کے ساتھ ہونے والا ہے وہاں تک ان کی سوچ جا ہی نہیں رہی.
عوام کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کی جب ہیلتھ کارڈ تو موجود ہو گا مگر ہسپتال ہی نہیں ہوں گے یا ہسپتال میں سہولت ہی نہیں ہوگی تو وہ کارڈ کس کام آئے گا؟؟

اس سکیم کے تحت دوسالوں میں پندرہ ملین لوگوں کو کارڈ تقسیم کیے جائیں گے، ایک محتاط اندازے کے مطابق دو سالوں میں دس کھرب سے زیادہ رقم اس منصوبے پر خرچ ہونگے
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی خطیر رقم سے ہر ڈسٹرکٹ میں بڑے ہسپتال بنائے جاتے اور پرانے ہسپتالوں میں موجود سہولیات کو مزید بہتر بنایا جاتا اور عوام کو انہی سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج فراہم کیا جاتا مگر ہیلتھ پالیسی بنانے والوں کی سوچ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پیسے ضائع کرنے کا آسان طریقہ ڈھونڈا اور اپنے سیاسی اور کاروباری لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کا راہ ہموار کیا جو کہ عوام کے گلے کا پھندا بنے گا. اور جب یہ پھندا سخت ہوگا تو عوام کو تب سمجھ آئے گی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے.

اس تحریر کا مقصد صرف عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا تھا تاکہ وہ حقوق کی جنگ وائی ڈی اے پنجاب کے سنگ لڑیں. میں سول سوسائٹی اور ادارہ برائے انسانی حقوق جیسے عوام کا درد رکھنے والے اداروں بھی سے اپیل کرتا ہوں کہ ہسپتالوں کی غیر اعلانیہ نجکاری اور ہیلتھ کارڈ جیسے دھوکوں کے بارے عوام میں آگاہی پھیلائیں اور اس کو روکنے میں وائی ڈی اے پنجاب کا بھرپور ساتھ دیں کیونکہ یہ ایک صدقہ جاریہ ہے.
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو. آمین