مسلم لیگ ن کے وفد نے ڈاکٹرشاہد مسعود کو کیا کہا اور ڈاکٹر شاہد مسعود آبدیدہ کیوں ہو گئے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 14 جنوری 2019ء) :زیر حراست سابق ایم ڈی پی ٹی وی اور معروف اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود سے کچھ صحافیوں نے ملاقات کی۔ سوشل میڈیا پر ایک صحافی عدیل وڑائچ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں انہوں نے بتایا کہ میری اور میرے ساتھی صدیق جان کی ڈاکٹر شاہد مسعود سے ملاقات ہوئی جس میں ہم نے اپنے سوالوں کی ایک طویل فہرست ان کے سامنے رکھ دی۔
ہماری ان سے کھُل کر بات ہوئی ، ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس ملاقات میں بہت سی باتیں کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا۔ میں نے ان سے سوال کیاکہ اب آپ کیا اُمید رکھتے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ میری جتنی تذلیل ہونی تھی ، جس طرح مجھے عادی مجرموں کے ساتھ لایا جاتا ہے،ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں، میری اپیل کے باوجود مجھے الگ گاڑی میں نہیں لایا جاتا۔

اس سے زیادہ تذلیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اب اس سے زیادہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہین صہبائی نے بھی ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہیے گا کہ آپ سمجھوتی مت کیجئیے گا۔ میں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو شاہین صہبائی صاحب کا پیغام دیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ سمجھوتے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے زیادہ میری کیا تذلیل اور تضحیک ہو سکتی تھی جو کر دی گئی ہے۔
میں نے ان سے سوال کیاکہ کیا آپ کو کسی سے کوئی شکوہ ہے؟ جس پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ ایک مرتبہ میرے پاس ن لیگ کا ایک وفد آیا اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ہماری حکومت میں آپ ہمارے خلاف بہت کچھ بولا کرتے تھے، لیکن ہم نے آپ کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ ہمارے دور حکومت میں نہ آپ کو ہتھکڑی لگی اور نہ ہی آپ کو قید کیا گیا۔ عدیل وڑائچ نے کہا کہ میں نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے سوال کیا کہ آپ کو اس سارے معاملے کے پیچھے کون نظر آتا ہے؟ آپ کو کیا لگتا ہے ؟ آپ کھُل کر کیوں نہیں بتاتے؟ جس پر ڈاکٹر شاہد مسعود خاموش ہو گئے لیکن ہمارے اصرار کے بعد انہوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ مجھے علم نہیں ہے۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ صحافتی برادری نے آپ کے لیے جو آواز اُٹھائی ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ جس پر انہوں نے ایک مُسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ ابھی تو یہی طے کیا جا رہا ہے کہ کیا میں صحافی ہوں بھی یا نہیں۔ ملاقات کے دوران ڈاکٹر شاہد مسعود بیرون ملک مقیم اپنے فالوورز اور کولیگز کی بات کرتے ہوئے آبدیدہ بھی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس سے متعلق شواہد اکٹھے کرنے کا مجھے موقع نہیں ملا کیونکہ میری ضمانت کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔
مجھے شواہد اکٹھا کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ پہلے کہا گیا کہ پیسے میرے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے جب کوئی شواہد نہ ملے تو کہا گیا کہ میں نے پیسے کیش میں لیے جب اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا تو کہاگیا کہ مجھے شاپنگ کروائی گئی ، اگر ایسا ہوا تو وہ ساری رسیدیں کہاں ہیں؟ اگر وہ رسیدیں نہیں ہیں تو مجھے حراست میں کیوں رکھا گیا ہے۔ جیل حکام نے کہا کہ آپ اپنی ڈگریاں دیں ہم آپ کو جیل میں بڑی کلاس دے دیتے ہیں جس پر میں نے جیل حکام سے کہا کہ میں اپنی ڈگریاں کہاں سے لاؤں؟ آپ نے مجھے جس حال میں رکھا ہوا ہے میں یہیں ٹھیک ہوں۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ امریکہ میں ڈاکٹرز کی تنظیم نے مجھے وہاں آ کر پریکٹس کرنے کا کہا تھا اور اب میں سوچتا ہوں کہ میں وہی کر لیتا اور پاکستان نہ آتا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اس ملک کے لیے ایک بیانیہ تشکیل دیا ہے جس پر مجھے فخر ہے لیکن مجھے اتنا نہیں پتہ کہ یہاں سے رہائی کے بعد میں اپنا پروگرام جاری رکھ بھی سکوں گا یا نہیں۔ کیونکہ اب بیرون ملک مقیم دوستوں وغیرہ کا سامنا کرنا میرے لیے مشکل ہو گا۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں پی ٹی وی کرپشن کیس میں عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔