آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والا قرضہ FATF کی کلئیرنس سے مشروط

آئی ایم ایف سے قرضے کے لئے FATF سے کلئیرنس لینا ضروری ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا
آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والا قرضہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی کلئیرنس سے مشروط ہے۔ تفصیلات کے مطابق خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے لئے ایف اے ٹی ایف سے کلئیرنس لینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 6 ارب ڈالرز حجم کا قرضہ دراصل تین ارب ڈالرز ہے کیونکہ باقی تین ارب ڈالرز تین سال میں آئی ایم ایف کو واپس ادا کرنا ہوں گے۔
پاکستان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرضوں کی نئی شرح پر تجدید کرے۔ آئندہ بجٹ سال میں بنیادی خسارہ 0.6 فیصد تک لایا جائے۔ جس کا مطلب دفاعی بجٹ میں کٹوتی ہوگی جبکہ آئی ایم ایف نے یہ زور دے کر پاکستانی آئین کی خلاف ورزی کی ہے کہ وفاق اورصوبوں کے درمیان این ایف سی ایوارڈ کو متوازن کیا جائے۔


آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر بات کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ حکومت پاکستان کو ٹیرز فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ کرنا ہوگا کیونکہ آئی ایم ایف کا قرضہ ایف اے ٹی ایف کی منظوری سے مشروط ہوگا۔

جس کا اجلاس 15 تا 17 مئی بیجنگ میں ہوگا۔ آئی ایم ایف کا ایگزیکٹیو بورڈ ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ کو پیش نظر رکھ کرقرضے کی منظوری دے گا۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ پاشا کے مطابق پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پوری کرنے کے بعد اقساط میں قرضے کی ادائیگی تین ماہ بعد سے شروع ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ چینی قرضوں کا حجم 19 ارب ڈالرز ہے۔ 7 ارب ڈالرز چینی بینکوں سے قرضوں کی شکل میں اور 4 ارب ڈالرز محفوظ ذخائر میں ہیں۔
سعودی عرب نے 3 ارب اور متحدہ عرب امارات نے 2 ارب ڈالرز دیئے ۔ آئی ایم ایف ان کا رول اوور چاہتا ہے۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ آئی ایم ایف یہ قرضے رکھنے کی پاکستان کو اجازت دینے پر آمادہ نہیں ہے جو بین الاقوامی معیار اورقاعدے کے خلاف بات ہے۔ تاہم عارف حبیب لمیٹڈ کی تحقیق کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام آزاد رو شرح مبادلہ پر بنایا گیا ہے۔
اس طرح آئندہ جون تک ڈالر 147 روپے اوردسمبر تک ایک ڈالر 152 روپے کا ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے ساتھ ہی شرح نمو تین فیصد پر مستحکم ہو جائے گی جبکہ متوسط طبقہ شدید دبائو میں آئے گا اور 80 لاکھ افراد کے غربت کی لکیر کے نیچے چلے جانے کا خدشہ ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر موجودہ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرضہ دینے کا معاملہ FATF کی کلیئرنس سے مشروط کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی اس شرط کے بعد پاکستان کے لیے ایک اور مشکل کھڑی ہو گئی ہے کیونکہ جب تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) پاکستان کو کلئیرنس نہیں دے گا آئی ایم ایف ملک کو معاشی دلدل سے نکلنے کے لیے کوئی بیل آؤٹ پیکج نہیں دے گا۔ لہٰذا پاکستان کے پاس اب کوئی آپشن نہیں بچا سوائے اس کے کہ FATF کے مطالبے پر تمام اقدامات کرے۔FATF کی جانب سے ان اقدامات پر مطمئن ہونے کے بعد ہی آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ قرضہ پروگرام پر دستخط کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے گرین سگنل دے دیا جائے گا۔
اس حوالے سے اقتصادی وزارتوں میں موجود سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے نہایت تشویشناک صورتحال ہے جسے خود کو مستحکم کرنے اور بد ترین معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف حکومت کی جانب سے یہ تذبذب یا ہچکچاہٹ کہ معاشی محاذ پر کیسے آگے بڑھا جائے، نے بھی واقعتاً ملک کی معیشت کو بہت تباہ کیا۔ حکومت کے اس تذبذب کی وجہ سے ہی ملک بھر میں غیر یقینی کیفیت بنی جس نے مارکیٹ کا اعتماد ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے