ہم دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی کاروائی کرنے جارہے ہیں: وزیر اعظم

وزیراعظم عمران خان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تمام اقدامات کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخ کی سب سے بری کارروائی کرنے جارہے ہیں۔
صحافیوں سے ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کی چیخیں سن رہا ہوں لیکن منی لانڈرنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور ان ملزمان سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ڈالر کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت نہیں اور ہم آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت میں اصلاحات ملک کے لیے کیں، منی بجٹ عوام دشمن نہیں ہوگا بلکہ کاروبار کا فروغ چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی اسمگلنگ کرنے والے بھی اپنے دن گننا شروع کردیں۔
ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے تمام اقدامات پاکستا ن کے حق میں ہیں کیونکہ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ روکنے اور مسلح گروپوں کی روک تھام چاہتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ واضح کردوں کہ ملک کو چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اب کوئی بحران نہیں ہے سرمایہ کار اطمینان رکھیں ملک میں کوئی غیر یقینی صورت حال نہیں ہے۔
حکومتی اقدامات کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اور موثرغربت مٹاؤ پروگرام لے کر آرہا ہوں۔
بعد ازاں اسلام آباد میں دنیا بھر سے آئے ہوئے پاکستانی سفیروں کی دو روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے سفیروں کو بیرون ملک منی لانڈرنگ کے حوالے سے کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں دوسروں پر انحصار کی پالیسی سے بہت نقصان پہنچا۔اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘قومی وقار کی بات پر مذاق اڑا یا جاتا ہے، قوموں کی غیرت بڑی اہمیت رکھتی ہے’۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘دوسروں پر انحصار پر بنائی گئی پالیسی سے نقصان پہنچا، سیٹو، سینٹو اور امریکا سے امداد نہ آئی تو ملک تباہ ہوجائے اور انحصار کے تحت خارجہ پالیسی بنائی گئی اور ہماری قیادت نے فیصلے اس بنیاد پر کیے کہ امداد کہاں سے آئے گی اور ہمیں آئی ایم ایف سے قرضہ کیسے ملے گا’۔
انہوں نے کہا کہ دوسروں پر انحصار کی پالیسی سے بہت نقصان ہوا اس لیے دوسروں پر انحصار کی پالیسی کو ترک کرنا پڑے گا۔
عمران خان نے کہا کہ ‘جب ہمارے پاس خسارہ بڑھنے لگا تو ملک میں آمدنی بڑھانے کے بجائے قرض لینے یا امداد لینے کا شارٹ کٹ لیا جس سے ہم نے اپنی خومختاری بھی کھو دیا اور ہماری غیرت اور خود داری ختم ہوگئی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کر سکے اور قوم کی تعمیر بھی نہیں ہوئی اور ملک میں جتنے بھی مسائل آئے ہیں وہ اسی ذہنیت کی وجہ سے آئے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ذہنیت میں تبدیلی آئے’۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘ذہنیت میں تبدیلی لانے اس لیے ضروری ہے کیونکہ باہر ہماری ایک بری تصویر ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد مغرب میں اسلامی بنیاد پرستوں کی اصطلاح آئی اس کے بعد نائن الیون اور اس سے قبل بھی میں نے دیکھا کہ ہماری قیادت خود ہمارے وزرااعظم باہر جاکر دنیا کو یہ کہتے تھے کہ میں ہوں لبرل اور اب مجھے بچالو ورنہ یہاں سارے بنیاد پرست آئیں گے اور ڈراتے تھے’۔
گزشتہ حکومت اور وزیر خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘واشنگٹن میں ایشیا سوسائٹی میں پاکستان تحریک انصاف اور اپنے اندر فرق کے سوال پر وزیرخارجہ کہتا ہے کہ ہم لبرل ہیں اور یہ تحریک انصاف مولویوں کے ساتھ ہے’۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘اس ملک کی اشرافیہ نے پیسے لینے کے لیے اپنے آپ کو لبرل بنا کر ملک میں تقسیم پیدا کی اور میں نے خود صحافیوں کو دیکھا کہ جو یہ کہہ رہے تھے کہ یہاں بنیاد پرست آئیں گے، لیکن دنیا میں ہر جگہ اکثریت جدید لوگوں کی ہوتی ہے جبکہ بنیاد پرست بھی ہوتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ہم نےمختصر مدت کے مفاد کے لیے غلط فیصلے کیے اور اشرافیہ ذاتی مفاد کے لیے بیرون ملک، پاکستان کا منفی تشخص پیش کرتی رہی۔
سفیروں کو اپنی ترجیحات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘میں چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے دفتر خارجہ اپنی ذہنیت تبدیل کرے، ہم اپنے سفیروں سے وہ کام چاہتے ہیں جو ابھی تک نہیں ہوا اور پاکستان ٹیم ورک سے ہی اس صورت حال سے باہر آئے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘دفتر خارجہ اور سفیروں سمیت دیگر اداروں سے رابطہ بہت ضروری ہے کیونکہ جن چیلنجز کا سامنا ہے ان پر معمول کے طریقوں سے قابو نہیں پاسکتے ہیں’۔
عمران خان نے کہا کہ ‘سفیروں سے سب سے پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ سمندر پار پاکستانیوں سے معاملات ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے جو استعمال میں نہیں ہے اس لیے ان کے لیے تمام رکاوٹیں ختم کرنے ہیں اور ان کی فہرستیں بنائیں تاکہ ہم ان سے رابطہ کرسکیں،