دوبڑے اولیا اللہ کی رازدارنہ وہ آٹھ باتیں جو ہر مسلمان کی زندگی میں انقلاب لاسکتی ہیں

اللہ کو پانے کے لئے ایک متوکل انسان کو کیا کرنا چاہئے ،اسے کن چیزوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے اور تصوف میں اعلیٰ مقام کی جستجو ہوتو اسے زندگی میں کن اصولوں کو اپنانا چاہئے کہ اسکے نصب العین کی راہ کھوٹی نہ ہو۔امام غزالی ؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’احیا ء العلوم ‘‘ میں اہل تصوف کے بارے لکھا ہے کہ وہ قرآن مجید میں سے جن آٹھ باتوں کو اپنی زندگی کا محور بنالیتے ہیں تمام عمر اس پر گزارتے ہیں ۔اس ضمن وہ حضرت شیخ شفیق بلخی ؒ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جب انہوں نے اپنے چہیتے شاگرد حضرت حاتم اصم ؒ سے اس بابت پوچھا کہ انہوں نے دوران تحصیل ان سے کیا سیکھا ہے ۔سیدنا حاتم اصم بلخیؒ کاپورا نام حاتم بن اسمٰعیل تھا۔ آپؒ نے تمام مروجہ علوم شفیق بلخیؒ اورِ امام ابو یوسفؒ سے حاصل کیے ۔استاذ نے ہی آپ کو خلافت بھی عطافرمائی۔
ا
ایک روز حضرت شیخ شفیق بلخیؒ نے اپنے شاگرد حاتم سے پوچھا.’’حاتم! تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو؟‘‘

حاتم نے کہا’’بتیس برس سے‘‘

ے
شیخ نے پوچھا’’بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا؟‘‘

حاتم نے کہا’’صرف آٹھ مسئلےآپ سے سیکھے ہیں‘‘
ا
شیخ نے کہا’’انا للہ وانا الیہ راجعون. میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے. تْو نے صرف آٹھ مسئلے سیکھے؟‘‘

حاتم نے کہا’’استادِ محترم! زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا‘‘

ا
شیخ نے پوچھا ’’اچھا بتاؤ کیا سیکھا ہے؟‘‘

حاتم نے کہا’’پہلی بات ۔میں نے مخلوق کو دیکھا تو معلوم ہوا ہر ایک کا محبوب ہوتا ہے قبر میں جانے تک. جب بندہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اپنے محبوب سے جدا ہو جاتا ہے. اس لیے میں نے اپنا محبوب ’’نیکیوں‘‘ کو بنا لیا ہے کہ جب میں قبر میں جاؤں گا تو یہ میرا محبوب میرے ساتھ قبر میں رہے گا‘‘
ا
’’: لوگوں کو دیکھا کہ کسی کے پاس قیمتی چیز ہے تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے. پھر فرمانِ الہی پڑھا’’جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے. جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے‘‘لہذاجو چیز مجھے قیمتی ہاتھ آئی اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تا کہ اس کے پاس محفوظ ہو جائے جو کبھی ضائع نہ ہو‘‘

3 ۔ میں نے خدا کے فرمان پر غور کیا’’اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بْری خواہشات سے باز رکھا، جنت اسی کا ٹھکانہ ہو گا‘‘اس لئے اپنے نفس کو بْرائیوں سے لگام دی. خواہشاتِ نفسانی سے بچنے کی محنت کی یہاں تک کہ میرا نفس اطاعتِ الٰہی پر جم گیا.

ی
4۔ لوگوں کو دیکھا ہر ایک کا رجحان دنیاوی مال، حسب نسب، دنیاوی جاہ و منصب میں پایا. ان امور میں غور کرنے سے یہ چیزیں ہیچ دکھائی دیں. اْدھر فرمان الٰہی دیکھا’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘ تو میں نے تقوٰی اختیار کیا تاکہ اللہ کے ہاں عزت پاؤں.

5: لوگوں میں یہ بھی دیکھا کہ آپس میں گمانِ بد رکھتے ہیں، ایک دوسرے کو بْرا کہتے ہیں. دوسری طرف اللہ کا فرمان دیکھا’’دنیا کی زندگی میں ان کی بسر اوقات کی ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں‘‘ اس لیے میں حسد کو چھوڑ کر خلق سے کنارہ کر لیا اور یقین ہوا کہ قسمت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے. خلق کی عداوت سے باز آگیا.

م
6: لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے سرکشی اور کشت و خون کرتے ہیں. اللہ کی طرف رجوع کیا تو فرمایا’’درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔‘‘ اس بنا پر میں نے صرف اس اکیلے شیطان کو اپنا دشمن ٹھہرا لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اس سے بچتا رہوں.

7: لوگوں کو دیکھا پارہ نان (روٹی کے ٹکڑے) پر اپنے نفس کو ذلیل کر رہے ہیں، ناجائز امور میں قدم رکھتے ہیں. میں نے ارشادِ باری تعالٰی دیکھا’’زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو‘‘ پھر میں ان باتوں میں م