افغانستان میں امن پاکستان اور بھارت دونوں کے فائدے میں ہے'

5 Years ago

PAKISTAN SHOWBIZ SPORTS INTERNATIONAL TECH FINANCE EDUCATION

HW Home News Latest

'افغانستان میں امن پاکستان اور بھارت دونوں کے فائدے میں ہے'
11 Dec, 2018 وائس آف امریکہ اردو


اسلام آباد —پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے بھارت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ کوئی بھی افغانستان کی سرزمین اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے پاکستان یا خطے کے دوسرے ممالک کو نقصان نہ پہنچائے۔یہ بات پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل کو اسلام آباد میں وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہی۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے بھارت تعاون کرے تاکہ اس سے پورے خطے کو فائدہ ہو۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مصالحتی کوششوں کے لیے پاکستان اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے لیکن اس کے لیے ان کے بقول ایک علاقائی سطح پر مشترکہ سوچ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان اور بھارت دونوں کے فائدے میں ہے۔پاکستان کی جانب سے افغانستان میں امن کے لیے بھارت سے تعاون کا مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان براہِ راست رابطے تیز ہوگئے ہیں۔حال ہی میں صدر ٹرمپ نے وزیرِ اعظم عمران خان کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے افغانستان میں مصالحت کے لیے جاری کوششوں میں پاکستان سے مدد مانگی تھی۔افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جاری کوششوں میں پاکستان کی ممکنہ معاونت کے بارے میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کے مختلف دھڑوں کو ایک ساتھ بیٹھنے پر راضی کیا جائے۔انہوں نے کہا، "دو لوگ اگر ناراض ہیں تو وہ جب تک مل کر نہیں بیٹھیں گے تو گفتگو نہیں ہو سکتی۔ ہماری کوشش ہے کہ وہ تشدد کو مسترد کر کے ایک میز پر آئیں اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے کی جانب بڑھیں۔"حال ہی میں افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں سے براہِ راست بات چیت کی ہے جس کے تناظر میں اسلام آباد نے پاکستان میں قید ملا برادر سمیت بعض افغان طالبان رہنماؤں کو رہا بھی کیا ہے۔افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکہ کے علاوہ روس اور چین بھی کافی سرگرم ہیں۔حال ہی میں ماسکو میں ایک کانفرنس میں افغان طالبان کے وفد نے شرکت کی تھی جب کہ رواں ہفتے کابل میں افغانستان، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں شرکت کے لیے شاہ محمود قریشی کابل جائیں گے۔افغانستان میں قیامِ امن میں چین کے کردار کے حوالے سے پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ خطے کا اہم ملک ہونے کے حیثیت سے چین بھی افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے۔انھوں نے کہا کہ "اگر افغانستان کی ترقی، امن و استحکام اور فاصلے کم کرنے میں چین اپنا کردار ادا کرتا ہے تو یہ بہت اچھی پیش رفت ہے۔"افغانستان میں امن کا پاک امریکہ تعلقات پر اثرشاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں امن کا پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت ملے کیوں کہ یہ امریکہ، پاکستان اور پورے خطے کے مفاد میں ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے خطے سے متعلق اپنی ماضی کی پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے اور اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا عسکری نہیں بلکہ سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔شاہ محمود قریشی کے مطابق سیاسی حل کی کوشش میں پاکستان اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور امریکہ نے بھی پاکستان کی افادیت کا اعتراف کیا ہے۔انھوں نے زور دیا کہ "ہم افغانستان کے لیے اور اپنی بہتری کے لیے جو کردار ادا کر سکتے ہیں وہ ادا کریں گے۔"پاکستان کی امداد بند کرنے کا مطالبہ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سبکدوش ہونے والی سفیر نکی ہیلی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد اس وقت تک بحال نہیں کی جانی چاہیے جب تو پاکستان امریکہ کے مطالبات پر عمل نہیں کرتا۔نکی ہیلی کے اس بیان سے متعلق وائس آف امریکہ کے سوال کے جواب میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ "وہ تو جا چکی ہیں۔ اگر ان (نکی) کی پالیسی چل رہی ہوتی اور ان کو اہمیت دی جاتی تو وہ ( اپنے عہدے پر) موجود رہتیں۔انھوں نے کہا کہ امریکہ نے اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے اور وزیرِ اعظم کے نام صدر ٹرمپ کا خط اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ پاکستان سے رابطہ رکھنا چاہتا ہے۔یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کے لیے اپنی جس نئی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا اس میں انھوں نے پاکستان پر دہشت گرد عناصر کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے