7197 - مسند احمد
Musnad Ahmed - Hadees No: 7197
Hadith in Arabic
(۷۱۹۷)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ: {وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا} قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ وَہُوَ سَیِّدُ الْأَنْصَارِ: أَہٰکَذَا نَزَلَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلَا تَسْمَعُونَ إِلٰی مَا یَقُولُ سَیِّدُکُمْ؟)) قَالُوا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَا تَلُمْہُ فَإِنَّہُ رَجُلٌ غَیُّورٌ وَاللّٰہِ مَا تَزَوَّجَ امْرَأَۃً قَطُّ إِلَّا بِکْرًا وَمَا طَلَّقَ امْرَأَۃً لَہُ قَطُّ فَاجْتَرَأَ رَجُلٌ مِنَّا عَلٰی أَنْ یَتَزَوَّجَہَا مِنْ شِدَّۃِ غَیْرَتِہِ فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللّٰہِ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّہَا حَقٌّ وَأَنَّہَا مِنَ اللّٰہِ تَعَالَی وَلٰکِنِّی قَدْ تَعَجَّبْتُ أَنِّی لَوْ وَجَدْتُ لَکَاعًا تَفَخَّذَہَا رَجُلٌ لَمْ یَکُنْ لِی أَنْ أَہِیجَہُ وَلَا أُحَرِّکَہُ حَتّٰی آتِیَ بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَوَاللّٰہِ لَا آتِی بِہِمْ حَتّٰی یَقْضِیَ حَاجَتَہُ قَالَ فَمَا لَبِثُوا إِلَّا یَسِیرًا حَتّٰی جَائَ ہِلَالُ بْنُ أُمَیَّۃَ وَہُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ تِیبَ عَلَیْہِمْ فَجَائَ مِنْ أَرْضِہِ عِشَائً فَوَجَدَ عِنْدَ أَہْلِہِ رَجُلًا فَرَأٰی بِعَیْنَیْہِ وَسَمِعَ بِأُذُنَیْہِ فَلَمْ یَہِجْہُ حَتّٰی أَصْبَحَ فَغَدَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی جِئْتُ أَہْلِی عِشَائً فَوَجَدْتُ عِنْدَہَا رَجُلًا فَرَأَیْتُ بِعَیْنَیَّ وَسَمِعْتُ بِأُذُنَیَّ فَکَرِہَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاجَائَ بِہِ وَاشْتَدَّ عَلَیْہِ وَاجْتَمَعَتِ الْأَنْصَارُ فَقَالُوا قَدِ ابْتُلِینَا بِمَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ الْآنَ یَضْرِبُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہِلَالَ بْنَ أُمَیَّۃَ وَیُبْطِلُ شَہَادَتَہُ فِی الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ ہِلَالٌ: وَاللّٰہِ إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لِی مِنْہَا مَخْرَجًا، فَقَالَ ہِلَالٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ أَرٰی مَا اشْتَدَّ عَلَیْکَ مِمَّا جِئْتُ بِہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ إِنِّی لَصَادِقٌ وَ وَاللّٰہِ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ أَنْ یَأْمُرَ بِضَرْبِہِ إِذْ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوَحْیَ وَکَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَیْہِ الْوَحْیُ عَرَفُوا ذٰلِکَ فِی تَرَبُّدِ جِلْدِہِ یَعْنِی فَأَمْسَکُوا عَنْہُ حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْوَحْیِ فَنَزَلَتْ {وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَائُ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ أَحَدِہِمْ} الْآیَۃَ فَسُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((أَبْشِرْ یَا ہِلَالُ! فَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا۔)) فَقَالَ ہِلَالٌ: قَدْ کُنْتُ أَرْجُو ذَاکَ مِنْ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَرْسِلُوا إِلَیْہَا۔)) فَأَرْسَلُوا إِلَیْہَا فَجَائَتْ فَقَرَأَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمَا وَذَکَّرَہُمَا وَأَخْبَرَہُمَا أَنَّ عَذَابَ الْآخِرَۃِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْیَا، فَقَالَ ہِلَالٌ: وَاللّٰہِ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَقَدْ صَدَقْتُ عَلَیْہَا، فَقَالَتْ: کَذَبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَاعِنُوا بَیْنَہُمَا۔)) فَقِیلَ لِہِلَالٍ: اشْہَدْ! فَشَہِدَ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ إِنَّہُ لَمِنْ الصَّادِقِینَ فَلَمَّا کَانَ فِی الْخَامِسَۃِ قِیلَ: یَا ہِلَالُ! اتَّقِ اللّٰہَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أَہْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَۃِ وَإِنَّ ہٰذِہِ الْمُوجِبَۃُ الَّتِی تُوجِبُ عَلَیْکَ الْعَذَابَ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ لَا یُعَذِّبُنِی اللّٰہُ عَلَیْہَا کَمَا لَمْ یَجْلِدْنِی عَلَیْہَا فَشَہِدَ فِی الْخَامِسَۃِ أَنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِینَ، ثُمَّ قِیلَ لَہَا: اِشْہَدِی أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ إِنَّہُ لَمِنْ الْکَاذِبِینَ، فَلَمَّا کَانَتْ الْخَامِسَۃُ قِیلَ لَہَا: اتَّقِ اللّٰہَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أَہْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَۃِ وَإِنَّ ہٰذِہِ الْمُوجِبَۃُ الَّتِی تُوجِبُ عَلَیْکِ الْعَذَابَ فَتَلَکَّأَتْ سَاعَۃً ثُمَّ قَالَتْ: وَاللّٰہِ لَا أَفْضَحُ قَوْمِی فَشَہِدَتْ فِی الْخَامِسَۃِ أَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِینَ فَفَرَّقَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمَا وَقَضٰی أَنَّہُ لَا یُدْعَی وَلَدُہَا لِأَبٍ وَلَا تُرْمَی ہِیَ بِہِ وَلَا یُرْمَی وَلَدُہَا وَمَنْ رَمَاہَا أَوْ رَمٰی وَلَدَہَا فَعَلَیْہِ الْحَدُّ وَقَضٰی أَنْ لَا بَیْتَ لَہَا عَلَیْہِ وَلَا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّہُمَا یَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَیْرِ طَلَاقٍ وَلَا مُتَوَفًّی عَنْہَا وَقَالَ إِنْ جَائَتْ بِہِ أُصَیْہِبَ أُرَیْسِحَ حَمْشَ السَّاقَیْنِ فَہُوَ لِہِلَالٍ وَإِنْ جَائَتْ بِہِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِیًّا خَدَلَّجَ السَّاقَیْنِ سَابِغَ الْأَلْیَتَیْنِ فَہُوَ لِلَّذِی رُمِیَتْ بِہِ فَجَائَتْ بِہِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِیًّا خَدَلَّجَ السَّاقَیْنِ سَابِغَ الْأَلْیَتَیْنِ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَوْلَا الْأَیْمَانُ لَکَانَ لِی وَلَہَا شَانٌ۔)) قَالَ عِکْرِمَۃُ فَکَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ أَمِیرًا عَلَی مِصْرَ وَکَانَ یُدْعَی لِأُمِّہِ وَمَا یُدْعَی لِأَبِیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۱۳۱)
Hadith in Urdu
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا} … جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ پیش نہیں کرتے تو انہیں اسی کوڑے مارو، اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کریں۔ تو انصار کے سردار سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اسی طرح آیت نازل ہوئی ہے، (جیسے آپ نے تلاوت کی ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انصاریو! جو کچھ تمہارے سردار نے کہا ہے، کیا تم نے سن لیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس سردار کو ملامت نہ کریں، کیونکہ یہ بہت غیرت مند آدمی ہے، ان کی غیرت کا یہ حال ہے کہ انہوں نے صرف دوشیزہ عورتوں سے شادی کی ہے اور ان کی غیرت کے جوش کی ہی وجہ ہے کہ جس عورت کو انہوں نے طلاق دی ہو، ہم میں سے کوئی بھی یہ جرأت نہیں کرتا کہ ان کی مطلقہ سے شادی کر لے۔سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے یہ معلوم ہے کہ آیت سچ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، مجھے تعجب یہ ہے کہ اگر بالفرض میں اپنی بیوی کو اس کمینگی تک پہنچے ہوئے دیکھوں کہ کوئی مرد اس سے زنا کا ارتکاب کرتا ہے، میرے لیے اجازت نہ ہو گی کہ میں نہ تو اس کو حرکت کرنے دوں اور نہ ہی بھڑکاؤ ں، تاوقتیکہ چار گواہ نہ لے آؤں، اللہ کی قسم! اس طرح تو کام نہیں چلے گا، میرے چار گواہ لانے تک تو وہ اپنا کام پورا کر چکے ہوں گے، یہ تو بطور فرض ہی بات ہو رہی تھی، حقیقت میں ایسا ہوا کہ کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ آ گئے، یہ صحابی ان تینوں میں سے ایک ہیں، جن کی غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے توبہ قبول ہوئی تھی۔ ہوا یوں کہ یہ رات کے وقت اپنی زمین سے فارغ ہو کر گھر آئے تو بیوی کے پاس ایک اجنبی مرد کو پایا، انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور کانوں سے آوازیں سن لیں، ان کی طبیعت میں اطمینان رہا، ہیجان پیدا نہ ہوا تھا۔ صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں رات کے وقت گھر آیا تو میری بیوی کے پاس ایک غیر مرد موجود تھا، جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور میں نے کانوں سے ان کی آواز سنی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بات کو پسند نہ فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ واقعہ ناخوشگوار گزرا، انصار جمع ہو کر کہنے لگے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جسے فرضی طور پر پیش کر رہے تھے وہ تو ہماری حقیقی آزمائش بن گیا ہے۔اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کو کوڑے بھی ماریں گے اور مسلمانوں میں اس کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیں گے۔جبکہ سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے پختہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور میرے لیے نجات کا رستہ نکالے گا۔ ہلال نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں دیکھ رہا ہوں جو کچھ میں نے آپ کے سامنے واقعہ دلخراش پیش کیا ہے یہ آپ کے مزاج پر گراں گزرا ہے، مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں میں نے سچ کہا ہے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں حد قذف کے اسی کوڑے لگانے کا حکم دینے ہی والے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول وحی کا آغازہونے لگا۔ جب وحی کے نزول کا آغاز ہوتا تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنگت کی تبدیلی سے پہچان جاتے تھے۔ آپ پر وحی کے نازل ہونے تک کے وقفہ میں لوگ آپ سے ہٹ کر رہتے تھے تو یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں: {وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَائُ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ أَحَدِہِمْ}… جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے اپنے سوا کوئی گواہ ان کے پاس موجود نہیں تو ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے نام کی چار گواہیاں ادا کرے،…۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ وحی کی کیفیت دور ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ہلال، آپ کے لیے پیغام مسرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے کشادگی اور بچاؤ کی تدبیر پیدا کر دی ہے۔ سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا:مجھے اپنے رب سے مکمل امید تھی کہ وہ ضرور کوئی نجات کی صورت پیدا فرمائیں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس عورت کی طرف پیغام بھیجو، اس کی طرف پیغام پہنچایا گیا، پس وہ آئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے سامنے ان آیات کی تلاوت فرمائی اور ان کے سامنے ذکر کیا کہ آخرت کا عذاب، دنیا کے عذاب سے بہت سخت ہے، سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! میں نے اس کے بارے میں سچ بات کہی ہے۔ عورت کہنے لگی: اس نے جھوٹ بولا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان میاں بیوی کے مابین لعان کرو، سیدنا ہلال سے کہا گیا کہ گواہی دو، اس نے چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کے نام کی گواہیاں دیں کہ میں سچا ہوں، جب پانچویں مرتبہ گواہی دینے ہی والا تھا تو ہلال سے کہا گیا اللہ سے ڈرو! دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کی بہ نسبت ہلکا ہے اور یہ پانچویں مرتبہ والی گواہی تجھ پر عذاب واجب کرنے کا باعث ہو گی۔ سیدنا ہلال کہنے لگا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جس طرح مجھے کوڑے نہیں لگنے دیئے، وہ مجھے عذاب اور سزا سے بھی محفوظ فرمائے گا، سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ نے پانچویں مرتبہ کہا: اگر میں جھوٹ بولنے والا ہوں گا تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔پھر اس عورت سے کہا گیا تو بھی اللہ تعالیٰ کی شہادت کی چار گواہیاں ادا کرنے کے بعد کہے کہ یہ ہلال جھوٹ بول رہا ہے، جب یہ عورت پانچویں مرتبہ گواہی دینے لگی تو اس سے کہا گیا کہ اللہ سے ڈر جا، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کی بہ نسبت آسان تر ہے اور اب کی مرتبہ تیری گواہی جھوٹی ہونے کی صورت میں سزا واجب کر دے گی، وہ لمحہ بھر رکی پھر یہ کہتی ہوئی کہ اللہ کی قسم! میں اپنی قوم کو رسوا نہ کروں گی آگے بڑھی اور پانچویں گواہی دی کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر وہ سچ بولتا ہے۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروا دی اور فیصلہ فرمایا کہ اسی لعان کے بعد والے بچے کو باپ کے نام سے نہ پکارا جائے اور اس کے بعد نہ تو اس عورت پر تہمت و طعنہ زنی کی جائے اور نہ ہی اس کے بچے پر تہمت و طعنہ زنی کی جائے، جو اس عورت یا اس کے بچے پر طعنہ زنی کرے گا، اسے تہمت کی حد لگائی جائے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ اس عورت کے لیے اس کے خاوند کے ذمہ نہ تو رہائش ہے اور نہ ہی خوراک ہے، کیونکہ یہ بغیر طلاق کے جدا ہوئے ہیں اور بغیر فوتدگی کے علیحدہ ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ عورت اس حلیہ کا بچہ جنم دے جو کہ سرخ و سفید رنگ کا ہو، پنڈلیاں اور سرین پر گوشت نہ ہو اور باریک پنڈلیوں والا ہو تو وہ ہلال بن امیہ کا ہو گا،اور اگر گندمی رنگ کا، گھنگھریالے بالوں والا ہو پر جوڑ اور مضبوط اعضاء اور موٹی پنڈلیوں اور موٹی سرین والا ہو تو یہ بچہ اس کا ہو گا جس کے ساتھ اس عورت پر تہمت لگائی گئی ہے۔ جب اس عورت نے بچہ جنم دیا تو وہ گندم گوں، گھنگھریالے بالوں والا اور مضبوط جوڑ اور اعضاء والا تھا، پنڈلیاں اور سرین پرگوشت تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ لعان کی قسموں والا معاملہ درمیان میں حائل نہ ہوتا تو میرے اور اس عورت کے درمیان کوئی اورصورت ہوتی۔ عکرمہ کہتے ہیں: وہی بچہ بعد میں مصر پر امیر مقرر ہوا تھا، اسے ماں کے نام سے پکارا جاتا تھا، باپ کے نام سے نہیں پکارا جاتا تھا۔
Hadith in English
.
- Book Name Musnad Ahmed
- Hadees Status صحیح
- Takhreej (۷۱۹۷) تخریج: حدیث حسن، أخرجہ ابوداود: ۲۲۵۶، وأخرجہ بنحوہ مختصرا البخاری: ۴۷۴۷ (انظر: ۲۱۳۱)