نو منتخب چئیرمین بلدیہ ٹیکسلا کا حلف لینے سے پہلے ہی پی ٹی آئی کے ساتھ سرد جنگ کا آغاز،

ٹیکسلا ( ڈاکٹر سید صابر علی سے )ٹیکسلا میونسپل کمیٹی چئیرمین وائس چیئرمین کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن میں ٹھن گئی ، چیف آفیسر بلدیہ ٹیکسلا رولنگ سٹون بن گیا ، دونوں جانب سے تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جاری ، چئیرمین وائس چئیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد تحصیل آفس میں موجود مقفل دفتر کس طرح کھلا ، کس ن ے کھولا ،اور کیوں کھولا نئی بحث چھڑ گئی ،نو منتخب چئیرمین شیخ وحید کے دفتر میں جانے پر پی ٹی آئی کے ارکان سیخ پا ، چئیرمین شیخ وحید نے چابی چیف آفیسر ٹیکسلا میونسپل کمیٹی کے حوالے کر دیں ، پی ٹی آئی کو دوبارہ چابی مل گئی،نو منتخب چئیرمین اور وائس چئیرمین کا حلف 21 جنوری کو ہوگا،تحصیل آفس میں صورتحال مزید کشیدہ ، سی او نے دفتر کھولنے پر قانونی چارہ جوئی کے لئے تھانہ ٹیکسلا سے رجوع کر لیا ،شیخ وحید اور لیگی اراکین پر عزم پنڈورہ بکس کھولا گیا تو سی او کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی ، کسٹوڈین سی او ہے وہی جوابدہ بھی ہوگا،تفصیلات کے مطابق ٹیکسلا میونسپل کمیٹی میں چئیرمین وائس چئیرمین کے ضمنی الیکشن کے بعد سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی ، چئیرمین اور وائس چئیرمین کا الیکشن مسلم لیگ ن جیتا ہے ، نو منتخب عہدیداران کی حلف برداری 21 جنوری کو متوقع ہے ، دو رز قبل نو منتخب چئیرمین شیخ وحید تحصیل گئے اور وہ کمرہ جہاں پی ٹی آئی کی بیٹھک تھی میں تالا کھول کر براجمان ہوگئے،جس پر پی ٹی آئی کے حلقوں کی جانب سے سخت برا منایا گیا ، گو یہ کہ دفتر پی ٹی آئی کا نہیں اور نہ ہی انھیں یہ دفتر دستور کے مطابق الاٹ کیا گیا،یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ مذکورہ دفتر میں فرنیچر چئیرمین کے دفتر سے لایا گیا جبکہ وہ دفتر قانون کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے بعد اس وقت کے سی او قمر زیشان نے مقفل کر کے سیل کردیا تھا جبکہ جس دفتر میں گزشتہ تین چار ماہ سے پی ٹی آئی نے اپنی بیٹھک بنائی ہوئی تھی اسے بھی مقفل سیل کیا گیا تھا،انتخاب کے بعد نو منتخب چیئرمین شیخ وحید نے جنہوں نے اس دفتر کو نیا تالاگایا اور اسکی ایک چابی سی او کو دی جس کے بعد وہ دفتر دوبارہ پی ٹی آئی کو مل گیا ، ادہر جب اس بابت سی او ٹیکسلا میونسپل کمیٹی ملک الفت حسین سے انکے موبائل نمبر پر رابطہ کر کے معاملہ کا موقف لیا گیا تو موصوف کا کہنا تھا کہ یہ سرکاری پراپرٹی ہے جو مرضی آکر بیٹھے،چابی چوکیدار کے پاس ہے ،تھانہ میں درخواست کی بابت انکا کہنا تھا کہ وہ واپس لے لی،دفاتر سیل ہونے کی بابت انکا کہنا تھا کہ یہ میرے علم میں نہیں،انھوں نے تسلیم کیا کہ شیخ وحید نے دفتر کی چابی میرے حوالے کی جو چوکیدار کے پاس ہے، ادہر سوشل میڈیا پر اس بابت گرما گرم بحث بھی جاری ہے تاہم یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ چونکہ کسٹوڈین اس وقت سی او ہے معاملہ کی تمام تر ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے،کیونکہ تحصیل میں دفاتر صرف منتخب چئیرمین اور وائس چئیرمین کے لئے مختص ہیں ،اگر قانون میں کہیں یہ پرویژن موجود ہے کہ اپوزیشن جماعت کے کونسلران یا کسی ایک کونسلر کو دفتر دیا جائیگا تو پھر یہ تمام بحث فضول ہے لیکن اگر قانون میں یہ پرویژن موجود نہیں تو اپوزیشن اراکین کو دفتر دینا سمجھ سے بالاتر ہے جس کا قانونی جواز قانون دان ہی بتا سکتے ہیں لیکن چونکہ وفاق اور صوبے میں اس وقت برسرا قتدار جماعت پی ٹی آئی ہے لہذا سی او کو انکو انکار بھی تو مہنگا پڑ سکتا ہے ،دوسری جانب مسلم لیگ ن کے نو منتخب چئیرمین شیخ وحید نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ جس دفتر میں پی ٹی آئی کے اراکین براجمان ہیں وہ سیل کردیا گیا تھا ، اور اسکی ذمہ داری سی او پر عائد ہوتی ہے جو کسٹوڈین ہے ،اس ضمن میں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا تو قانون کے مطابق ان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے جو جن کی ملی بھگت سے سسٹم خراب ہورہا ہے ، اسکا مطلب تو یہ ہے کہ سی او کی اپنی کوئی رٹ نہیں یا وہ ایڈمنسٹریشن کے قابل نہیں تاہم ہم کسی سے خوف زدہ نہیں اپنا حق لیکر رہیں گے جو اس میں رکاوٹ کھڑی کرے گا اس کے ساتھ قانون کے مطابق بات کی جائے گی،انھوں نے عندیہ ظاہرکیاکہ معاملہ خراب ہوا تو تحصیل میں لڑائی جھگڑے یا کسی نقصان کا ذمہ دار بھی سی او ہوگا،نہ کسی کو قانون کی دھجیاں بکھیرنے دیں گے نہ کسی کی لونڈی بننے کا اختیار دیا جائے گا۔