ہم اس زمانے کے خوش نصیب لوگ!

ایک دن میں ایف، ایم ریڈ یو پر سن رہا تھا کہ ہم اس زما نے کے کتنے خوش نصیب لو گ ہیں ۔ تو وہ اس کو الفاظ میں یو ں پر وئے جا رہا تھا جیسے کسی نے شبنم کے مو تیوں سے ایک خو بصورت اور دلکش ہا ر تیا ر کیا ہو۔ میں جب سن رہا تھا تو محسوس کیا کہ اس کو قلم بند کروں تاکہ آپ تک بھی یہ اچھی اور خوبصورت با تیں پہنچ سکیں۔ اب تو زما نہ بہت بدل گیا ہے لیکن ہم اس زما نے کے کتنے خوش نصیب اورآخری لو گ ہیں ۔ جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پر یؤں کی کہانیاں سنیں، اور دادا، دادی کے پا س سا ری سا ری رات گزاری۔ جنہوں نے محلے کی چھتوں پر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پتنگیں اُڑایں اور کٹی ہو ئی پتنگ کے پیچھے میلوں دوڑئے، جنہوں نے اپنے پیاروں کے لئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔ اور پھر اُس کے جواب میں بہت دنوں تک انتظار کیا۔ ہم شا ید ! اس دنیا کے آ خری لو گ ہیں ۔ جنہوں نے دیے کی روشنی میں کتابیں پڑھیں ۔ بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا ۔ دادی ماں کو لسی بنا تے دیکھا ۔ کھیتوں اور کھلیانوں کی رونق دیکھی ۔ گُڑ کو اپنی آ نکھوں کے سا منے بنتے دیکھا ۔ جنہوں نے کھیتوں سے مولی، گا جر اور شلجم توڑ کر کھا ئے۔ جنہوں نے با غوں میں خود اپنے ہا تھوں سے امرود توڑئے۔ جنہوں نے مٹی کے گھڑوں سے پا نی پیا ۔

ہم شاید! اس زما نے کے وہ خوش نصیب اور آ خری لوگ ہیں جنہوں نے عید کا چا ند دیکھ کر تا لیاں بجا ئی۔ جنہوں نے سا ری ساری رات تا رے گننے میں گزاردی۔ جنہوں نے تاروں کو ٹوٹتے دیکھا ۔ اور دل ہی دل میں کچھ ما نگ بھی لیا ۔ ہم وہ آ خری لو گ ہیں جو سر پر سرسوں کا تیل انڈیل کر اور آنکھوں میں سرمہ ڈال کر شادیوں میں جا تے تھے ۔ ہم وہ لو گ ہیں جو اسوں ، پنجوں ، گُلی ڈانڈا کھلتے اور گلے میں مفلر لٹکا کر خود کو باؤ سمجھتے تھے۔ ہم ہی وہ دلفریب لوگ ہیں جنہوں نے ندیم اور شبنم کی نا کا م محبت پر آ نسو بہا ئے، اور آ نکل سر گم کو دیکھ کر خوش ہو ئے۔ہم ہی وہ بہترین لو گ ہیں جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑی کی ۔اور لکڑی کی قلم سے لکھ لکھ کر اپنے ہا تھ کا لے کر بیٹھتے تھے۔ جنہوں نے سکو ل کی گھنٹی بجنے کو اپنے لئے ہمیشہ ایک اعزاز سمجھا ۔ اور سب سے پہلے گیٹ سے با ہر آنے کو اپنی جیت سمجھتے تھے۔ہم ہی وہ خوش نصیب لو گ ہیں جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ کبھی وہ بھی زما نے تھے دوستوں جب سب چھت پر سوتے تھے ۔ اینٹوں پر پا نی کا چھڑکا ؤں ہوتاتھا اور پا س ہی ایک سٹنڈ والا پنکھا پڑا ہو تا تھا اور گھر میں لڑائی اس با ت پر ہو تی کہ پنکھے کے سا منے کس کا بستر لگا یا جا ئے گا ۔ سورج کے سا تھ ہی سب کی آ نکھ کھلتی تھی ۔ مگر پھر بھی سب ڈ ھیٹ بن کر سو ئے رہتے تھے ۔ اور آ دھی را ت کو اگر کبھی با رش آ جا تی تو سب اُٹھ کر اپنا بستر اٹھا کر نیچے بھا گتے تھے۔ وہ چھت پر سونے کے سب دور ہی بیت گئے۔ لو گ بھی روٹھ گے اور رشتے بھی چھوٹ گئے۔ اب نہ تو وہ رشتوں میں مٹھاس رہی ہیں اور نہ ہی سچا ئی ۔ وہ خا لص رشتوں کا دور تھا ۔ لو گ کم پڑ ھے لکھے تھے اور مخلص ہو تے تھے ۔ ایک دوسرے سے ملتے تھے ۔ ایک دوسرے کے مہمان کو اپنا مہمان سمجھتے تھے۔ مگر اب زما نہ پڑ ھ لکھ کر ترقی تو کر گیا ۔ مگر مفا دات اور خو د غرضی میں کھو گیا ۔ سو چتا ہو ں پہلے لو گ ان پڑھ تھے۔ مگر جا ہل نہیں تھے۔ وہ زندگی کو انسانی اقدار سے جیتے تھے۔ وہ زندگی گزارتے نہیں تھے ۔آج لو گ پڑھے لکھے ہیں مگر۔۔۔ آ ج لو گو ں کے پاس سب کچھ مو جو د ہیں ۔ مگر اس کے با وجو د وہ زندگی گزارتے ہیں ۔ زندگی جیتے نہیں۔