کراچی میں رواں سال کا پہلا کانگو وائرس کیس سامنے آگیا

کراچی : شہرقائد میں رواں سال کانگو وائرس کا پہلا کیس سامنے آگیا، اورنگی ٹاؤن کی 35 سالہ خاتون میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
ایگزیکٹوڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹرسیمی جمالی نے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کی 35 سالہ خاتون میں وائرس کی تصدیق کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ خاتون کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انکے لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد خاتون میں کانگو کریمین ہیمرجک فیور میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی۔
سیمی جمالی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال 41 مریضوں میں کانگو وائرس کی تصدیق کی گئی تھی۔ جن میں زیادہ تر مریضوں کا تعلق کوئٹہ سے تھا جبکہ 2018 میں کانگو وائرس سے کراچی میں 16 اموات ہوئی تھیں۔
کانگو وائرس کیا ہے؟
طبی ماہرین کے مطابق کانگو نامی کیڑا بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ کی جلد پر پایا جاتا ہے جو جانور کی کھال سے چپک کر خون چوستا رہتا ہے۔
یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا متاثرہ جانور ذبح کرتے ہوئے انسان کو کٹ لگ جائے تو اس بات کے امکانات کافی حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ یہ وائرس انسان میں منتقل ہوجائے گا۔
کیڑے کے کاٹنے کے بعد وائرس انسانی جسم میں داخل ہوکر تیزی سے سرایت کرجاتا ہے جس کے باعث متاثرہ شخص پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں بعد ازاں جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مریض موت کے منہ میں چلاجاتا ہے۔
کانگو وائرس کی علامات
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔متاثرہ شخص کو سر درد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالوں کے ساتھ آنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔

علاوہ ازیں تیز بخار سے جسم میں سفید خلیوں (وائٹ سیلز) کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور پھر جسم کے مختلف حصوں سے خون نکلنے لگتا ہے، جگر اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر مرض کا بروقت علاج کروا لیا جائے تو متاثرہ شخص دوبارہ صحت مند ہوسکتا ہے تاہم علاج کے لیے پابندی ضروری ہے۔
احتیاطی تدابیر
کانگو سے بچاؤ اور اس پر قابو پانا تھوڑا مشکل ہے کیوں کہ جانوروں میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں البتہ ان میں چیچڑیوں کو ختم کرنے کے لیے کیمیائی ادویات کا اسپرے کیا جاسکتا ہے۔کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں،مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں،مریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں،لمبی آستینوں والی اور ہلکے کپڑے کی قمیض پہنیں،مویشی منڈی میں بچوں کو نہ لے کر جائیں۔
مویشی منڈی میں موجود جانوروں کے فضلے سے اٹھنے والا تعفن بھی اس مرض میں مبتلا کر سکتا ہے لہٰذا اس سے بھی دور رہیں۔
کپڑوں اور جلد پر چیچڑیوں سے بچاؤ کا لوشن لگائیں۔
مویشی منڈی فل آستین کپڑے پہن کر جائیں کیونکہ بیمار جانوروں کی کھال اورمنہ سے مختلف اقسام کے حشرت الارض چپکے ہوئے ہوتے ہیں جن کے کاٹنے سے انسان مختلف امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
جانوروں کی نقل و حمل کے وقت دستانے اور دیگر حفاظتی لباس ضرور پہنیں بالخصوص مذبح خانوں، قصائی اور گھر میں ذبیحہ کرنے والے افراد لازمی احتیاطی تدابیراختیار کریں۔
مذبح خانوں میں جانوروں کے طبی معائنہ کے لیے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کا ہونا بہت ضروری ہے جو ایسے جانوروں کی نشاندہی کر سکیں۔