10616 - مسند احمد

Musnad Ahmed - Hadees No: 10616

Hadith in Arabic

۔ (۱۰۶۱۶)۔ عَنْ أبِیْ اِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: اشْتَرٰی أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَازِبٍ سَرْجًا بِثَلَاثَۃَ عَشَرَ دِرْھَمًا، قَالَ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ لِعَازِبٍ: مُرِ الْبَرَائَ فَلْیَحْمِلْہُ اِلٰی مَنْزِلِیْ، فَقَالَ: لَا، حَتّٰی تُحَدِّثَنَا کَیْفَ صَنَعْتَ حِیْنَ خرَجَ َرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنْتَ مَعَہُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ: خَرَجْنَا فَأَدْلَجَنَا فَأَحْثَثْنَا یَوْمَنَا وَلَیْلَتَنَا حَتّٰی أَظْھَرْنَا وَقَامَ قَائِمُ الظَّھِیْرَۃِ فَضَرَبْتُ بِبَصَرِیْ ھَلْ أَرٰی ظِلًّا نَأْوِیْ اِلَیْہِ فَاِذَا أَنَا بِصَخْرَۃٍ فَاَھْوَیْتُ اِلَیْھَا فَاِذَا بَقِیَّۃُ ظِلِّھَا فَسَوَّیْتُہُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفَرَشْتُ لَہُ فَرْوَۃً وَقُلْتُ: اضْطَجِعْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَاضْطَجَعَ ثُمَّّ خَرَجْتُ أَنْظُرُ ھَلْ أَرٰی أَحَدًا مِنَ الطَّلَبِ فَاِذَا أَنَا بِرَاعِیْ غَنَمٍ۔ فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ یَا غُلَامُ؟ فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ فَسَمَّاہُ فَعَرَفْتُہُ فَقُلْتُ: ھَلْ فِیْ غَنَمِکَ مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: ھَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرْتُہُ فَاعْتَقَلَ شَاۃً مِنْھَا ثُمَّّ أَمَرْتُہُ فَنَفَضَ ضَرْعَھَا مِنَ الْغُبَارِ ثُمَّّ أَمَرْتُہُ فَنَفَضَ کَفَّیْہِ مِنَ الْغُبَارِ وَمَعِیَ اِدَاوَۃٌ، عَلٰی فَمِھَا خِرْقَۃٌ فَحَلَبَ لِیْ کُثْبَۃً مِنَ اللَّبَنِ فَصَبَبْتُ یَعْنِی الْمَائَ عَلَی الْقَدَحِ حَتّٰی بَرَدَ أَسْفَلُہُ ثُمَّ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَافَیْتُہُ وَقَدِ اسْتَیْقَظَ فَقُلْتُ: اشْرَبْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَشَرِبَ حَتّٰی رَضِیْتُ ثُمَّّ قُلْتُ: أَنَی الرَّحِیْلُ؟ قَالَ: فَارْتَحَلْنَا وَالْقَوْمُ یَطْلُبُوْنَا فَلَمْ یُدْرِکْنَا أَحَدٌ مِنْھُمْ اِلَّا سُرَاقَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ عَلٰی فَرَسٍ لَہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھٰذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا فَقَالَ: ((لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا)) حَتّٰی اِذَا دَنَا مِنَّا فَکَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُ قَدْرُ رُمْحٍ أَوَ رُمْحَیْنِ أَوَ ثَلَاثَۃٍ، قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا وَبَکَیْتُ، قَالَ: ((لِمَ تَبْکِیْ؟)) قَالَ: قُلْتُ: أَمَا وَاللّٰہِ! مَا عَلٰی نَفْسِیْ أَبْکِیْ وَلٰکِنْ أَبْکِیْ عَلَیْکَ، قَالَ: فَدَعَا عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اللّٰھُمَّ اکْفِنَاہُ بِمَا شِئْتَ)) فَسَاخَتْ قَوَائِمُ فَرَسِہِ اِلٰی بَطْنِھَا فِیْ أَرْضٍ صَلْدٍ وَوَثَبَ عَنْھَا وَقَالَ: یَامُحَمَّدُ! قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ ھٰذَا عَمَلُکَ فَادْعُ اللّٰہَ أَنْ یُنْجِیَنِیْ مِمَّا أَنَا فِیْہِ، فَوَاللّٰہِ! لَأُعَمِّیَنَّ عَلٰی مَنْ وَرَائِیْ مِنَ الطَّلَبِ وَھٰذِہِ کِنَانَتِیْ فَخُذْ مِنْھَا سَھْمًا فَاِنَّکَ سَتَمُرُّ بِاِبِلِیْ وَغَنَمِیْ فِیْ مَوْضِعِ کَذَا وَکَذَا فَخُذْ مِنْھَا حَاجَتَکَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَا حَاجَۃَ لِیْ فِیْھَا، قَالَ: وَدَعَا لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأُطْلِقَ فَرَجَعَ اِلٰی اَصْحَابِہٖوَمَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا مَعَہُ حَتّٰی قَدِمْنَا الْمَدِیْنَۃَ فَتَلَقَّاہُ النَّاسُ فَخَرَجُوْا فِی الطَّرِیْقِ وَ عَلَی الْاَجَاجِیْرِ فَاشْتَدَّ الْخَدَمُ وَالصِّبْیَانُ فِی الطَّرِیْقِیَقُوْلُوْنَ: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، جَائَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: وَتَنَازَعَ الْقَوْمُ أَیُّھُمْیَنْزِلُ عَلَیْہِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَنْزِلُ اللَّیْلَۃَ عَلٰی بَنِی النَّجَّارِ اَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لِاُکْرِمَھُمْ بِذٰلِکَ۔)) فَلَمَّا اَصْبَحَ غَدَا حَیْثُ أُمِرَ، قَالَ الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ: اَوَّلُ مَنْ کَانَ قَدِمَ عَلَیْنَا مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ أَخُوْ بَنِیْ عَبْدِ الدَّارِ ثُمَّّ قَدِمَ عَلَیْنَا ابْنُ آَمِّ مَکْتُوْمٍ الْأَعْمٰی أَخُوْ بَنِیْ فِھْرٍ ثُمَّّ قَدِمَ عَلَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِیْ عِشْرِیْنَ رَاکِبًا فَقُلْنَا مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ھُوَ عَلٰی أَثَرِیْ ثُمَّّ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ مَعَہُ قَالَ الْبَرَائُ: وَلَمْ یَقْدَمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی قَرَأْتُ سُوَرًا مِنَ الْمُفَصَّلِ، قَالَ اِسْرائِیْلُ: وَکَانَ الْبَرَائُ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِیْ حَارِثَۃَ۔ (مسند احمد: ۳)

Hadith in Urdu

۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے باپ سیدنا عازب سے تیرہ درہم کی ایک زین خریدی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے باپ سے کہا: براء کو کہہ دینا کہ میرے گھر چھوڑ آئے، انھوں نے کہا: جی نہیں، جب تک تم مجھے یہ بیان نہیں کرو گے کہ تم نے اس وقت کیا کیا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ سے نکلے تھے اور تم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم (غار سے) نکلے اور رات کے پہلے حصے میںچلتے رہے، ہم اس رات اور دن کو تیزی سے چلتے رہے، یہاں تک کہ دوپہر کا وقت ہو گیا، میں نے دور دور تک دیکھا کہ آیا کوئی سائے والی جگہ ہے، جس میں سستا سکیں، پس اچانک مجھے ایک چٹان نظر آئی، میں اس کی طرف جھکا، اس کا جو سایہ باقی تھا، اس جگہ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے برابر کیا اور اس پر چمڑا بچھایا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ لیٹ جائیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لیٹ گئے اور میں وہاں سے نکل پڑا تاکہ دیکھ سکوں کہ آیا کوئی تلاش کرنے والا پہنچ تو نہیں گیا، اچانک میری نظر بکریوں کے ایک چرواہے پر پڑی، میں نے اس سے پوچھا: او لڑکے! تو کس کا چرواہا ہے؟ اس نے کہا: فلاں قریشی کا، اس نے اس کا نام لیا اور میں نے اس کو پہچان لیا، پھر میں نے کہا: کیا تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، میں نے کہا: کیا تو مجھے دوہ کر دے گا؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس میں نے اس کو حکم دیا، اس نے بکری کی ٹانگوں کو باندھا، پھر میں نے اس کو حکم دیا کہ تھنوں سے گرد و غبار کو صاف کر دے، پھر میں نے اس کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بھی غبار کو صاف کر دے، میرے پاس ایک برتن تھا، اس پر منہ پر ایک چیتھڑا تھا، پس اس نے میرے لیے تھوڑی مقدار میں دودھ دوہا، پھر میں نے پیالے پر پانی بہایا،یہاں تک کہ اس کے نیچے والا حصہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس حال میںپایا کہ آپ بیدار ہو چکے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ دودھ نوش فرمائیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیا،یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا، پھر میں نے کہا: کوچ کرنے کا وقت ہو چکا ہے، پس ہم وہاں سے چل پڑے، اُدھر لوگوں نے ہم کو تلاش تو کیا، لیکن صرف سراقہ بن مالک بن جعشم ہم تک پہنچ سکا، وہ گھوڑے پر سوار تھا، جب میں نے اس کو دیکھا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تلاش کرنے والا ہم تک پہنچ چکا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پریشان نہ ہو، بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ جب وہ اس قدر ہمارے قریب ہو گیا کہ ایکیا دو یا تین نیزوں کے فاصلے پر تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ متلاشی بالکل ہمارے پاس پہنچ چکا ہے ، ساتھ ہی میں رونے لگ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیوں روتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنی ذات کے لیے نہیں، آپ کی ذات کے لیے رو رہا ہوں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر بد دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ! اپنی چاہت کے مطابق کسی چیز کے ساتھ اس سے کفایت کر۔ پس اس کے گھوڑے کی ٹانگیں سخت زمین میں پیٹ تک گھس گئیں اور وہ کود کر اس سے پرے ہٹ گیا اور اس نے کہا: اے محمد! میں جانتا ہوں کہ تمہاری کاروائی ہے، اب اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دلا دے، اللہ کی قسم ہے، میں اپنے پیچھے آنے والے متلاشیوں کو تم لوگوں سے اندھا بنا دوں گا، یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر آپ لے لیں، کیونکہ آپ عنقریب فلاں جگہ سے گزرنے والے ہیں، وہاں میرے اونٹ اور بکریاں ہیں، (میرے چرواہے کو یہ تیر دکھا کر) وہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق جو چاہیں لے لینا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے دعا کی، پس اس کو آزاد کر دیا گیا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے چل دیئے، جبکہ میں (ابو بکر) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے، پس لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملے اور لوگ راستوں پر اور چھتوں پر موجود تھے اور راستے میں خادموں اور بچوں نے ہجوم کیا ہوا تھا اور وہ کہہ رہے تھے: اللہ اکبر، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ گئے ہیں، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہنچ گئے ہیں، اب لوگوں میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس کے گھر اتریں گے، اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں آج رات عبد المطلب کے ماموؤں بنو نجار کے پاس اتروں گا، میں ان کو یہ شرف دینا چاہتا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حکم ہوا، اس کے مطابق چل پڑے۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمارے پاس سب سے پہلے آنے والے مہاجر بنو عبد الدار کے بھائی سیدنا مصعب بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ان کے بعد بنو فہر کے بھائی سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پہنچے، پھر بیس افراد سمیت سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے، ہم نے ان سے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیا کر رہے ہیں، انھوں نے کہا: وہ میرے پیچھے تشریف لا رہے ہیں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگئے، جبکہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ساتھ تھے۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ابھی تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ میں تشریف نہیں لائے تھے کہ میں نے بعض مفصل سورتوں کی تعلیم حاصل کر لی تھی، اسرائیل راوی نے کہا: سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، بنو حارثہ کے انصار میں سے تھے۔

Hadith in English

.

Previous

No.10616 to 13341

Next
  • Book Name Musnad Ahmed
  • Hadees Status صحیح
  • Takhreej (۱۰۶۱۶) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۶۱۵، ۳۶۵۲، ومسلم: ۴/ ۲۳۱۰ (انظر: ۳)