10564 - مسند احمد

Musnad Ahmed - Hadees No: 10564

Hadith in Arabic

۔ (۱۰۵۶۴)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: ثَنَا ھَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَۃَیُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَالِکَ بْنَ صَعْصَعَۃَ، أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثَھُمْ عَنْ لَیْلَۃٍ أُسْرِیَ بِہٖقَالَ: ((بَیْنَا أَنَا فِی الْحَطِیْمِ (وَرُبَمَا قَالَ قَتَادَۃُ: فِی الْحِجْرِ) مُضْطَجِعٌ اِذْ أَتَانِیْ آتٍ فَجَعَلَ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ: الْأَوْسَطُبَیْنَ الثَّلَاثَۃِ، قَالَ: فَأَتَانِیْ فَقَدَّ (وَسِمْعُت قَتَادَۃَیَقُوْلُ: فَشَقَّ) مَا بَیْنَ ھٰذِہِ اِلٰی ھٰذِہِ، (قَالَ قَتَادَۃُ: فَقُلْتُ لِلْجَارُوْدِ وَھُوَ اِلٰی جَنْبِیْ: مَا یَعْنِیْ؟ قَالَ: مِنْ ثُغْرِۃِ نَحْرِہِ اِلٰی شِعْرَتِہِ، وَقَدْ سَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: مِنْ قُصَّتِہِ اِلٰی شِعَرَتِہِ) قَالَ: فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِیْ فَأُتِیْتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَھَبٍ مَمَلُوْئَۃٍ اِیْمَانًا وَحِکْمَۃً فَغُسِلَ قَلْبِیْ، ثُمَّّ حُشِیَ ثُمَّّ أُعِیْدَ، ثُمَّّ أُتِیْتُ بِدَابَّۃٍ دُوْنَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْیَضَ (قَالَ: فَقَالَ الْجَارُوْدُ: ھُوَ الْبُرَاقُ؟ یَا أَبَا حَمْزَۃَ! قَالَ: نَعَمْ) یَقَعُ خَطْوُہُ عِنْدَ اَقْصٰی طَرْفِہِ، قَالَ: فَحُمِلْتُ عَلَیْہِ، فَانْطَلَقَ بِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰی أَتٰی بِیَ السَّمَائَ الدُّنْیَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِیْلَ مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ، قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، فَقَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا فِیْھَا آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَقَالَ: ھٰذَا أَبُوْکَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتٰی اِلَی السَّمَائِ الثَّانِیَّۃِ فَاسْتَفْتَحَ، فَقِیْلَ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَ مَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا یَحْیٰی وَعِیْسٰی وَھُمَا اِبْنَا الْخَالَۃِ، فَقَالَ: ھٰذَا یَحْیٰی وَعِیْسٰی، فَسَلِّمْ عَلَیْھِمَا، قَالَ: فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ الثَّالِثَۃِ فَاسْتَفْتَحِ، فَقِیْلَ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا یُوْسُفُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا یُوْسُفُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ وَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ الرَّابِعَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، فَقِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ، قَالَ: نَعَمْ، فَقِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ قَالَ: فَاِذَا اِدْرِیْسُ عَلَیْہِ السِّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا اِدْرِیْسُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّّمَائَ الْخَامِسَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، فَقِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا ھٰرُوْنُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا ھٰرُوْنُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، قَالَ: فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: ثُمَّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ السَّّادِسَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا أَنَا بِمُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ، قَالَ: ھٰذَا مُوْسٰی فَسَلِّمْ عَلَیْہِ! فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السِّلَامَ ثُمّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَکٰی، قِیْلَ لَہُ: مَا یُبْکِیْکَ؟ قَالَ: أَبْکِیْ لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِیْ ثُمَّّ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِہِ أَکْثَرُ مِمَّا یَدْخُلُھَا مِنْ أُمَّتِیْ، قَالَ: ثُمّّ صَعِدَ حَتّٰی أَتَی السَّمَائَ السَّابِعَۃَ فَاسْتَفْتَحَ، قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدُ، قِیْلَ: أَوَ قَدْ أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖوَنِعْمَالْمَجِیْئُ جَائَ، قَالَ: فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَقَالَ: ھٰذَا اِبْرَاھِیْمُ فَسَلِّمَ عَلَیْہِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْإِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ، قَالَ: ثُمَّّ رُفِعَتْ اِلَیَّ سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی، فَاِذَا نَبْقُھَا مِثْلُ قِلَالِ ھَجَرَ، وَاِذَا وَرَقُھَا مِثْلُ آذَانِ الْفِیَلَۃِ، فقَالَ: ھٰذِہِ سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی، قَالَ: وَاِذَا أَرْبَعَۃُ أَنْھَارٍ، نَھْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَھْرَانِ ظَاھِرَانِ، فَقُلْتُ: مَا ھٰذَا یَاجِبْرِیْلُ؟ قَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَھْرَانِ فِیْ الْجَنَّۃِ وَأَمَّا الظَّاھِرَانِ فَالنِّیْلُ وَالْفُرَاتُ، قَالَ: ثُمَّّ رُفِعَ اِلٰی الْبَیْتُ الْمَعْمُوْرُ، (قَالَ قَتَادَۃُ: وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ رَأَی الْبَیْتَ الْمَعْمُوْرَ یَدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَک ثُمَّّ لَا یَعُوْدُوْنَ اِلَیْہِ، ثُمَّّ رَجَعَ اِلٰی حَدِیْثِ أَنَسٍ) قَالَ: ثُمَّّ أُتِیْتُ بِاِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَاِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ وَاِنَائٍ مِنْ عَسَلٍ، قَالَ: فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ، قَالَ: ھٰذِہِ الْفِطْرَۃُ، أَنْتَ عَلَیْھَا وَأُمَّتُکَ، قَالَ: ثُمَّّ فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: فَرَجَعْتُ عَلٰی مُوْسٰی عَلَیْہِ السِّلَامُ، فَقَالَ: بِمَاِذَا أُمِرْتَ؟ قِیْلَ: أُمِرْتُ بِخَمْسِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ، وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ، فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّیْ عَشْرًا، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلٰی مُوْسٰی فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: بِأَرْبَعِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ أَرْبَعِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ، وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّیْ عَشْرًا أَخَرَ، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ لِیْ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: اُمِرْتُ بِثَلَاثِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ لِثَلَاثِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمَعَالَجَۃِ، فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَوضَعَ عَنِّیْ عَشْرًا أَخَرَ، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ لِیْ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: بِعِشْرِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ: اِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ الْعِشْرِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ، فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ: اِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ لِعَشْرِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ فَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ، وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسَ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَرَجَعْتُ اِلٰیمُوْسٰی فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ: اِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ، وَاِنِّیْ قَدْ خَبَرْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِأُمَّتِکَ، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ سَأَلْتُ رَبِّیْ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ مِنْہُ وَلٰکِنْ اَرْضٰی وَاُسَلِّمُ، فَلَمَّا نَفَذْتُ نَادٰی مُنَادٍ قَدْ اَمْضَیْتُ فَرِیْضَتِیْ وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۸۹)

Hadith in Urdu

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا مالک بن صعصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اسراء والی رات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، میرے پاس ایک آنے والا یعنی جبریل علیہ السلام آیا اور اس نے اپنے ساتھی سے کہا: ان تینوں میں درمیان میں لیٹے ہوئے (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہیں، پس وہ میرے پاس آیا اور اس جگہ سے اس جگہ تک لمبائی میں چاک کردیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے اپنے پہلو میں بیٹھنے والے جارود سے پوچھا: اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد کیا تھی؟ انھوں نے کہا: ہنسلی کی ہڈیوں کے درمیان والی پست جگہ سے لے کر شرمگاہ کے بال اگنے والی جگہ تک پیٹ کو چاک کر دیا، پھر میرا دل نکالا گیا، ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا سونے کا تھال میرے پاس لایا گیا، پھر میرے دل کو دھو کر ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا اور پھر اصل حالت میںلوٹا دیا گیا، بعد ازاں میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا، وہ خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا لگ رہا تھا۔ جارود راوی نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ جانور براق تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں، اس جانور کا قدم اس کی منتہائے نگاہ تک جاتا تھا، میں (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو اس پر سوار کر لیا گیا اور حضرت جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چل پڑے، یہاں تک کہ مجھے آسمانِ دنیا تک لے آئے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: آپ کو مرحبا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا آنا بہترین آمد ہے، پس آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اس سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آدم علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل نے کہا: یہ آپ کے باپ آدم ہیں، ان کو سلام کہو، میں نے ان پر سلام کہا، انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بیٹے اور صالح نبی کو مرحبا،پھر جبریل آگے بڑھے اور دوسرے آسمان تک پہنچ گئے، وہاں دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا:جی ہاں، کہا گیا: مرحبا، یہ بہترین آمد ہے، پھر دروازہ کھول دیا گیا اور جب میں اس سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو خالہ زاد یحییٰ اور عیسی علیہما السلام تشریف فرما ہیں، جبریل نے کہا: یہ یحییٰ اور عیسی ہیں، ان کو سلام کہو، پس میں نے سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید، پھر وہ مجھے لے کر تیسرے آسمان کی طرف چڑھے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس کہا گیا: آپ کو مرحبا، آپ کا آنا بہترین آمد ہے، پھر دروازہ کھول دیا گیا اور جب میں اس سے گزرا تو کیا دیکھا وہاں حضرت یوسف علیہ السلام تشریف فرما تھے، جبریل نے کہا: یہ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کریں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید، پھر وہ آگے کو بڑھے، یہاں تک کہ چوتھے آسمان تک پہنچ گئے اور کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا گیا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس کہا گیا: مرحبا، ان کاآنا بہترین آمد ہے، پس دروازہ کھول دیا گیا، پھر جب میں داخل ہوا تو کیا دیکھا کہ ادریس علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ ادریس ہیں، آپ ان کو سلام کریں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جواب دیا اور پھر کہا: صالح بھائی اورصالح نبی کو مرحبا۔بعد ازاں جبریل علیہ السلام پانچویں آسمان کی طرف چڑھے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے، اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، ان کا آنا بہترین آمد ہے، پس دروازہ کھول دیا، جب میں اس سے آگے گزرا تو دیکھا کہ ہارون علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل نے کہا: یہ ہارون ہیں، آپ ان کو سلام کہیں، پس میں نے سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جواب دیا، پھر انھوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا، پھر انھوں نے چڑھنا شروع کیا،یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچ گئے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، ان کا آنا بہترین آمد ہے، پس دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اس سے داخل ہوا تو دیکھا موسی علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ موسی ہیں، آپ ان کو سلام کہیں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پھر کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا، جب میں ان سے آگے بڑھا تو انھوں نے رونا شروع کر دیا، ان سے کہا گیا: تم کیوں رو رہے ہو؟ انھوں نے کہا: میں اس لیے رو رہا ہوں کہ ایک آدمی میرے بعد مبعوث کیا گیا، لیکن میری امت کی بہ نسبت اس کی امت کی اکثریت جنت میں داخل ہو گی، پھر وہ آگے کو بڑھے اور ساتویں آسمان تک پہنچ گئے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل، کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا گیا: مرحبا، یہ بہترین آنا آئے، پس دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اس سے آگے گزرا تو دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف فرما ہیں، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیں، پس میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بیٹے اور صالح نبی کو مرحبا، پھر میرے لیے سدرۃالمنتہی کو بلند کیا گیا، اس کا پھل ہجر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتہی ہے، وہاں چار نہریں تھیں، دو نہریں مخفی تھیں اور دو ظاہری، میں نے کہا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ دو باطنی نہریں جنت میں جا رہی ہیں اور یہ دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر میرے لیے بیت ِ معمور کو بلند کیا گیا۔ امام حسن بصری نے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت ِ معمور کو دیکھا، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر وہ دوبارہ نہیں آ سکتے، پھر راوی سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث کی طرف لوٹے اور کہاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر میرے پاس ایک برتن شراب کا، ایک دودھ کا اور ایک برتن شہد کا لایا گیا، میں نے دودھ پکڑ لیا، اس نے کہا: یہ فطرت ہے، آپ اور آپ کی امت فطرت پر ہیں، پھر مجھ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، لیکن جب میں لوٹا اور موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ایک دن میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انھوں نے کہا: بیشک تیری امت پچاس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں بنی بنو اسرائیل کے ساتھ بڑی سخت مشق کی ہے، لہٰذا آپ اپنے ربّ کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، پس میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں، پھر جب میں لوٹا اور موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ایک دن میں چالیس نمازیں ادا کرنے کا حکم ملا ہے، انھوں نے کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میں چالیس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، جبکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں نے بنی اسرائیل کے ساتھ معاملات کو بڑی سختی سے نمٹایا ہے، لہٰذا آپ اپنے ربّ کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، سو میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے مزید دس نمازیں کم کر دیں، پھر میں موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور انھوں نے کہا: آپ کو کس عمل کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ایک دن میں تیس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انھوں نے کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میں تیس نمازیں ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، میں آپ سے پہلے لوگوں کو پرکھ چکا ہوں اور بنی اسرائیل کے ساتھ بڑی سختی سے معاملات انجام دیئے ہیں، لہٰذا آپ لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، پس میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے مزید دس نمازیں کم کر دیں، لیکن پھر جب میں موسی علیہ السلام کے پاس لوٹا تو انھوں نے وہی سوال کیا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے، میں نے کہا: جی ایک دن میں بیس نمازوں کا، انھوں نے پھر وہی بات کہی کہ آپ کی امت ایک دن میں بیس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، جبکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں نے بنواسرائیل کے ساتھ بڑی سخت مشق کی ہے، لہٰذا اپنے ربّ کی طرف لو جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کرو، پس میں لوٹ گیا اور مجھے ایک دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا، لیکن جب میں حضرت موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور انھوں نے پوچھا کہ آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے تو میں نے کہا: جی ایک دن میں دس نمازوں کا، انھوں نے اب کی بار پھر کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میں دس نمازیں ادا نہیں کر سکتی، جبکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کی جانچ پڑتال کر چکا ہوں اور میں نے بنو اسرائیل بڑی سختی کے ساتھ آزمایا ہے، لہٰذا تو اپنے ربّ کی طرف لوٹ جا اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کر، پس میں پھر لوٹ گیا اور مجھے ایک دن میں پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا، میں حضرت موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور انھوں نے پوچھا: آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا؟ میں نے کہا: مجھے ایک دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے، انھوں نے پھر کہا: بیشک آپ کی امت ایک دن میںپانچ نمازیں ادا نہیں کر سکتی اور میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور میں نے بنو اسرائیل کے ساتھ بڑی سختی کے ساتھ مشق کی ہے، لہٰذا آپ اپنے ربّ کی طرف لوٹیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، اب کی بار میں نے کہا: میں نے اپنے ربّ سے اتنی بار سوال کر لیا ہے کہ میں اس سے شرماتا ہوں، اب میں اسی پر راضی ہوتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں، پس جب میں آگے کو گزرا تو آواز دینے والے نے آواز لگائی: تحقیق میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا ہے اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کی ہے۔‘‘

Hadith in English

.

Previous

No.10564 to 13341

Next
  • Book Name Musnad Ahmed
  • Hadees Status صحیح
  • Takhreej (۱۰۵۶۴) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۲۰۷، ۳۳۹۳، ۳۴۳۰، ۳۸۸۷، ومسلم: ۱۶۴ (انظر: ۱۷۸۳۵)