10552 - مسند احمد

Musnad Ahmed - Hadees No: 10552

Hadith in Arabic

۔ (۱۰۵۵۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ وَیَحْیٰی قَالَ: لَمَّا ھَلَکَتْ خَدِیْجَۃُ جَائَ تْ خَوْلَۃُ بِنْتُ حَکِیْمٍ، اِمَرَأَۃُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَلَا تَزَوَّجُ؟ قَالَ: ((مَنْ؟)) قَالَتْ: اِنْ شِئْتَ بِکْرًا وَاِنْ شِئْتَ ثَیِّبًا، قَالَ: ((فَمَنِ الْبِکْرُ؟)) قَالَتْ: اِبْنَۃُ أَحَبِّ خَلْقِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِلَیْکَ عَائِشَۃُ بِنْتُ أَبِیْ بَکْرٍ، قَالَ: ((وَمَنْ ثَیِّبٌ؟)) قَالَتْ: سَوْدَۃُ ابْنَۃُ زَمْعَۃَ، قَدْ آمَنَتْ بِکَ وَاتْبَعَتْکَ عَلٰی مَا تَقُوْلُ، قَالَ: ((اذْھَبِیْ فَاذْکُرِیْھِمَا عَلَیَّ۔)) فَدَخَلَتْ بَیْتَ أَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَتْ: یَا أُمَّ رُوْمَانَ! مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ، قَالَتْ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْطُبُ عَلَیْہِ عَائِشَۃَ، قَالَتِ: انْتَظِرِیْ أَبَابَکْرٍ حَتّٰییَأْتِیَ فَجَائَ أَبُوْبَکْرٍ فَقَالَتْ: یَا أَبَابَکْرٍ مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ؟ قَالَ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْطُبُ عَلَیْہِ عَائِشَۃَ، قَالَ: وَھَلْ تَصْلُحُ لَہُ اِنَّمَا ھِیْ ابْنَۃُ أَخِیْہِ، فَرَجَعْتْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لَہُ، قَالَ: ((ارْجَعِیْ اِلَیْہِفَقُوْلِیْ لَہُ: أَنَا أَخُوْکَ وَأَنْتَ أَخِیْ فِی الْاِسْلَامِ، وَابْنَتُکَ تَصْلُحُ لِیْ۔)) فَرَجَعَتْ فَذَکَرَتْ لَہُ ذٰلِکَ لَہُ، قَالَ: انْتَظِرِیْ وَخَرَجَ، قَالَتْ أُمُّ رُوْمَانَ: اِنَّ مُطْعِمَ بْنَ عَدِیٍ قَدْ کَانَ ذَکَرَھَا عَلَی اِبْنِہِ فَوَاللّٰہِ! مَا وَعَدَ وَعْدًا قُطُّ فَأَخْلَفَہُ لِأَبِیْ بَکْرٍ، فَدَخَل أَبُوْبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلٰی مُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ وَعِنْدَہُ امْرَأَتُہُ أُمُّ الْفَتٰی، فَقَالَتْ: یَاابْنَ أَبِیْ قُحَافَۃَ! لَعَلَّکَ مُصْبٍ صَاحِبَنَا مُدْخِلُہُ فِیْ دِیْنِکَ الَّذِیْ أَنْتَ عَلَیْہِ اِنْ تَزَوَّجَ اِلَیْکَ؟ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ لِلْمُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ: اَقَوْلَ ھٰذِہِ تَقُوْلُ، قَالَ: اِنَّھَا تَقُوْلُ ذٰلِکَ، فَخَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ وَقَدْ اَذْھَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَا کَانَ فِیْ نَفْسِہِ مِنْ عِدَتِہِ الَّتِیْ وَعَدَہُ فَرَجَعَ، فَقَالَ: اِدَعِیْ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَتْہُ فَزَوَّجَھَا اِیَّاہُ، وَعَائِشَۃُیَوْمَئِذٍ بِنْتُ سِتِّ سِنِیْنَ، ثُمَّّ خَرَجَتْ فَدَخَلَتْ عَلَی سَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ فَقَالَتْ: مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکَ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ! قَالَتْ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَخْطُبُکَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: قَالَتْ: وَدِدْتُ، ادْخُلِیْ اِلٰی أَبِیْ فَاذْکُرِیْ ذَاکِ لَہُ، وَکَانَ شَیْخًا کَبِیْرًا قَدْ اَدْرَکَہُ السِّنُّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ الْحَجِّ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَحَیَّتْہُ بِتَحِیَّۃِ الْجَاھِلِیَّۃِ، فَقَالَ: مَنْ ھٰذِہِ؟ فَقَالَتْ: خَوْلَۃُ بِنْتُ حَکِیْمٍ، قَالَ: فَمَا شَأْنُکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَخْطُبُ عَلَیْہِ سَوْدَۃَ، قَالَ: کُفْئٌ کَرِیْمٌ، مَاذَا تَقُوْلُ صَاحِبَتُکِ؟ قَالَتْ: تُحِبُّ ذَاکَ، قَالَ: ادْعُھَا اِلَیَّ فَدَعَیْتُھَا قَالَ: أَیْ بُنَیَّۃُ! اِنَّ ھٰذِہِ تَزْعَمُ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَرْسَلَ یَخْطُبُکِ، وَھُوَ کُفْئٌ کَرِیْمٌ، أَ تُحِبِّیْنَ أَنْ أُزَوِّجَکِ بِہٖ؟قَالَتْ: نَعَمْ،قَالَ: ادْعِیْہِ لِیْ، فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَیْہِ فَزَوَّجَھَا اِیَّاہُ، فَجَائَ ھَا أَخُوْھَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ مِنَ الْحَجِّ فَجَعَلَ یَحْثِیْ فِیْ رَأْسِہِ التُّرَابَ، فَقَالَ بَعْدَ أَنْ أَسْلَمَ: لَعَمْرُکَ! اِنِّیْ لَسَفِیْہٌیَوْمَ أَحْثِیْ فِیْ رَأْسِیَ التُّرَابَ اَنْ تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقَدِمْنَا الْمَدِیْنَۃَ فَنَزَلْنَا فِیْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ فِی السُّنْحِ، قَالَتْ: فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ بَیْتَنَا وَاجْتَمَعَ اِلَیْہِ رِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَنِسَائٌ، فَجَائَ تْنِیْ أُمِّیْ وَاِنِّیْ لَفِیْ اَُرْجُوْحَۃٍ بَیْنَ عَذْقَیْنِ تَرْجَحُ بِیْ، فَاَنْزَلَتْنِیْ مِنَ الْأُرْجُوْحَۃِ وَلِیَ جُمَیْمََۃٌ فَفَرَقَتْھَا وَمَسَحَتْ وَجْھِیْ بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ ثُمَّّ أَقْبَلَتْ تَقُوْدُنِیْحَتّٰی وَقَفَتْ بِیْ عِنْدَ الْبَابِ وَاِنِّیْ لَاَنْھَجُ حَتّٰی سَکَنَ مِنْ نَفْسِیْ، ثُمَّّ دَخَلَتْ بِیْ فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ جَالِسٌ عِنْدَ سَرِیْرٍ فِیْ بَیْتِنَا، وَعِنْدَہُ رِجَالٌ وَنِسَائٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَاَجْلَسَتْنِیْ فِیْ حِجْرِہِ، ثُمَّّ قَالَتْ: ھٰؤُلَائِ أَھْلُکَ فَبَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْھِمْ وَبَارَکَ لَھُمْ فِیْکَ، فَوَثَبَ الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ فَخَرَجُوْا، وَبَنٰی بِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ بَیْتِنَا مَا نُحِرَتْ عَلَیَّ جَزُوْرٌ وَلَاذُبِحَتْ عَلَیَّ شَاۃٌ حَتّٰی أَرْسَلَ اِلَیْنَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ بِجَفْنَۃٍ کَانَ یُرْسِلُ بِھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ اِذَا دَارَ اِلٰی نِسَائِہِ، وَأَنَا یَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِیْنَ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۸۸)

Hadith in Urdu

۔ ابو سلمہ اور یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وفات پا گئیں تو سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی سیدہ خولہ بنت ِ حکیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ شادی نہیںکریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کس سے؟ انھوں نے کہا: اگر آپ کنواری کو چاہتے ہیں تو وہ بھی مل سکتی ہے اور اگربیوہ چاہتے ہے تو وہ بھی مل سکتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کنواری کون ہے؟ انھوں نے کہا: آپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص کی بیٹی ہے، عائشہ بنت ابی بکر ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: بیوہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: سودہ بنت زمعہ، وہ آپ کے ساتھ ایمان لائی ہے اور آپ کے فرمان کے مطابق آپ کی پیروی کی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم جاؤ اور دونوں کو میرے بارے میں یہ پیغام دو۔ پس سیدہ خولہ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں داخل ہوئی اور کہا: اے ام رومان! اللہ تعالیٰ نے کیا خیر و برکت تمہارے گھر میں داخل کر دی ہے! اس نے کہا: وہ کیا، سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، میں عائشہ کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منگنی کا پیغام لے کر آئی ہوں، اس نے کہا: ابو بکر کے آنے کا انتظار کر، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے، سیدہ خولہ نے کہا: اے ابو بکر! اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر کیا خیر و برکت نازل کر دی ہے! انھوں نے کہا: وہ کیا، اس نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، میں عائشہ کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منگنی کا پیغام لے کر آئی ہوں، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ عائشہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے جائز ہے، یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بھتیجی ہے، پس وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو لوٹ جا اور ان کو کہہ: میں تیرا اور تو میرا اسلامی بھائی ہے اور تیری بیٹی میرے لیے جائز ہے۔ پس وہ لوٹی اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ بات بتلائی، اب کی بار انھوں نے کہا: تو پھر تو انتظار کر، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نکل پڑے، اُدھر سیدہ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ تفصیل بتائی کہ مطعم بن عدی نے عائشہ کے لیے اپنے بیٹے کا ذکر کیا تھا، پس اللہ کی قسم ہے کہ کبھی ایسے نہیں ہوا کہ وہ وعدہ کرے اور پھر ابو بکر کے لیے اس کی پاسداری نہ کرے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مطعم بن عدی کے پاس پہنچ گئے، اس کی بیوی ام الفتی اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی، اس کی بیوی نے کہا: اے ابن ابی قحافہ! اگر ہمارا بندہ تیری طرف شادی کر لے تو ممکن ہو گا کہ تو اس کو بے دین بنا کر اپنے دین میں داخل کردے، یہ سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مطعم بن عدی سے کہا: کیایہی بات ہے جو یہ کر رہی ہے؟ اس نے کہا: بس یہ تو یہی بات کہتی ہے، (سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سمجھا کہ مطعم اپنی بیوی سے اتفاق کر رہا ہے) لہٰذا وہ اس کے پاس سے نکل پڑے اور ان کے دل میں اس شخص کے وعدے کے بارے میں جو بات تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کو ختم کر دیا، پس ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ واپس لوٹ آئے اور خولہ سے کہا: تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلا، پس اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلایا اور انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کر دیا، اس وقت سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی عمر چھ برس تھی، پھر سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وہاں سے نکلی اور سیدہ سودہ بنت زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گئی اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا خیر و برکت نازل کر دی ہے! اس نے کہا: وہ کیسے؟ اس نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تجھے منگنی کا پیغام دینے کے لیے مجھے بھیجا ہے، انھوں نے کہا: میں تو یہ چاہتی ہوں، لیکن تو میرے ابو کے پاس جا اور ان سے اس چیز کا ذکر وہ عمر رسیدہ بزرگ تھے اور ادھیڑ عمری کی وجہ سے حج سے پیچھے رہ گئے تھے، پس وہ ان کے پاس گئی اور ان کو جاہلیت والا سلام کہا، اس نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں خولہ بنت حکیم ہوں، اس نے کہا: توکیسے آئی ہے؟ اس نے کہا: محمد بن عبد اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، میں سودہ کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منگنی کا پیغام لے کر آئی ہوں، اس نے کہا: یہ تو بڑا بہترین کفو ہے، لیکن تیری سہیلی سودہ خود کیا چاہتی ہے؟ اس نے کہا: وہ تو اس چیز کو پسند کر رہی ہے، اس نے کہا: اس کو میری طرف بلا، پس میں اس کو بلا لائی، اس نے کہا: اے میری پیاری بیٹی! یہ خولہ بتا رہی ہے کہ محمد بن عبد اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منگنی کے لیے تجھے پیغام بھیجا ہے، یہ بڑا بہترین کفو ہے، تو کیا تو یہ پسند کرے گی کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تیری شادی کر دوں؟ سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جی ہاں، اس نے کہا: خولہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلا کر لے آ، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور اس نے سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شادی کر دی، جب سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بھائی عبد بن زمعہ حج سے واپس آیا اور اسے اس شادی کا علم ہوا تو اس نے اپنے سر پر مٹی پھینکنا شروع کر دی، لیکن اس نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کہا تھا: تیری عمر کی قسم! جس دن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی شادی کی وجہ سے اپنے سر پر مٹی ڈالی تھی، اس دن میں بیوقوف تھا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: پس ہم لوگ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور سُنْح مقام پر بنو حارث بن خزرج کے ہاں اترے، پھر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور انصاریوں کے خواتین و حضرات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جمع ہو گئے، میری ماںمیرے پاس آئی، جبکہ میں کھجور کے دو درختوں کے درمیان بندھے ہوئے پنگھوڑے میں تھی، انھوں نے مجھے پنگھوڑے سے اتارا، میرے سر کے بال کندھوں تک تھے، انھوں نے ان میں کنگھی کی اور میرےچہرے کو پانی سے دھویا اور پھروہ مجھے چلاتی ہوئی آگے بڑھیں،یہاں تک کہ دروازے پر کھڑی ہو گئیں، مجھے سانس چڑھا ہوا تھا، پھر جب میرا سانس تھما تو وہ مجھے لے کر گھر میں داخل ہوئیں وہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چارپائی پر تشریف فرما تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس انصاری خواتین و حضرات بھی موجود تھے، میری ماں نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بٹھا کر کہا: یہ تیرے اہل ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں تیری لیے اور تجھ میں ان کے لیے برکت نازل فرمائے، پھر خواتین و حضرات اٹھے اور گھر سے باہر چلے گئے، وہیں ہمارے گھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ساتھ خلوت اختیار کی، میری شادی پر نہ اونٹ ذبح کیے گئے اور نہ بکریاں، سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہماری طرف کھانے کا ایک برتن بھیجا تھا، عام طور پر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شادی کے موقع پر اپنی بیوی سے خلوت اختیار کرتے تھے تو وہ یہ کھانا بھیجا کرتے تھے، اس وقت میری عمر نو برس تھی۔

Hadith in English

.

Previous

No.10552 to 13341

Next
  • Book Name Musnad Ahmed
  • Hadees Status صحیح
  • Takhreej (۱۰۵۵۲) تخریج: اسنادہ حسن، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۲۳/ ۵۷، وأخرجہ مختصرا ابوداود: ۴۹۳۷ (انظر: ۲۵۷۶۹)