وفاقی محکموں میں 5 کھرب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

اسلام آباد: آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) نے 36 وزارتوں کو دی جانے والی 31 کھرب 20 ارب روپے کی فنڈنگ میں بدانتظامی، بے ضابطگیوں اور کمزور مالیاتی کنٹرول پر اعتراضات اٹھا دیے۔

آڈیٹر جنرل نے ریکارڈ پر لاتے ہوئے بتایا کہ ان کی رپورٹ کے نتائج، 60 میں سے 36 وزارتوں اور ڈویژن کو دیے جانے والے فنڈز کی جانچ پڑتال کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 10 لاکھ سے زائد کی رقم ایسی کمپنیوں کو دی گئی یا خرچ کی گئی جن کا جانچ کی بنیاد پر آڈٹ کیا گیا جو کہ 100 فیصد آڈٹ نہیں تھا۔

آڈیٹر جنرل پاکستان نے 123 کیسز کو نمایاں کیا جن میں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ضروری اخراجات اور ادائیگیاں کی گئیں جن کی رقم تقریباً 8 کھرب 76 ارب روپے ہے۔رپورٹ میں 33 ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی جن میں کمزور مالی انتظام کی وجہ سے 19 کھرب کی بے ضابطگیاں ہوئیں جبکہ 52 ایسے کیسز سامنے آئے جن میں اثاثہ جات کے کمزور انتظام کے تحت 9 ارب 50 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔

رپورٹ میں 78 ایسے کیسز سامنے آئے جن میں 15 کھرب 30 ارب روپے کمزور اندرونی مالی کنٹرول کا شکار ہوئے جبکہ 7 کھرب 30 ارب روپے زائد ادائیگیوں اور پبلک فنڈز میں خرد برد کا شکار ہوئے۔

آڈیٹر جنرل پاکستان نے وزارت خزانہ اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) کی جانب سے 10 کھرب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس میں غلط بیانی پر بھی سوالات اٹھائے۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومتی اخراجات کے یونٹ اور اور آڈیٹر جنرل پاکستان ریونیو مشترکہ طور پر اصل اخراجات کی تجدید کے ذمہ دار ہیں، لیکن اب تک رقوم کے ایک بڑے حصے کے اصل اخراجات کی تجدید زیر التوا ہے۔