جنگلی حیات کا خاتمہ نہ روکا گیا تو

جنیوا: اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر جنگلی حیات، قدرتی ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے بے دریغ خاتمے کو نہیں روکا گیا تو خود انسانی بقا کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اقوامِ متحدہ میں حیاتیاتی تنوع (بایو ڈائیورسٹی) کی سربراہ کرسٹیانا پشکا پامر نے کہا ہے اس ضمن میں دو سال میں ہمیں نئے اور قابلِ عمل معاہدے پر کام کرنا ہوگا ورنہ خود انسانی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے تمام ممالک کے باشندوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیں تاکہ 2020ء تک حشرات، پرندوں، پودوں اور ممالیوں کے تحفظ کے لیے قابلِ عمل اہداف بناسکیں اور غذائی تحفظ کو یقینی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کی جاسکے۔

ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کرسٹینا نے کہا کہ حیاتیاتی تنوع کا نقصان (انسانوں کے لیے) خاموش قاتل ہے، اگرچہ یہ کلائمٹ چینج سے مختلف ہے لیکن کم اہم نہیں کیونکہ ہمیں جنگلی
حیات کی موت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وقت گزرچکا ہوتا ہے تمام جان دار ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور خود انسان کی زندگی بھی انہی سے جڑی ہے۔
اس ضمن میں 195 ممالک اور یورپی یونین مصر کے شہر شرم الشیخ میں جمع ہوکر جنگلی حیات اور ماحول کی بقا پر غور کریں گے اور کسی فریم ورک پر متفق ہونے کا بھی امکان ہے۔ اس میں 2020ء میں چین میں ہونے والی کانفرنس کے لیے قابلِ عمل اہداف کے تعین میں مدد مل سکے گی۔

جانوروں اور قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی انجمنوں کا عرصے سے مطالبہ ہے کہ اس موضوع کو بھی آب و ہوا میں تبدیلی کی طرح اہمیت دی جائے اور پیرس کلائمٹ معاہدے کی طرح ایک قابلِ عمل اور منظم لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔

اس سے قبل 2002ء اور 2010ء میں حیاتیاتی تنوع کی بین الاقوامی کانفرنسز میں دو اہم معاہدے ہوئے تھے لیکن ان پر عمل نہیں ہوسکا اور عین اسی عرصے میں زمین پر جانوروں کی معدومیت اور ان کے ماحول کی تباہی کے اتنے بڑے سانحات رونما ہوئے کہ انہیں ڈائنوسار کے خاتمے کے بعد جان داروں کا سب سے بڑا نقصان تصور کیا جارہا ہے۔

کرسٹینا پامر نے امید ظاہر کی کہ شرم الشیخ کی کانفرنس سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں