امریکا نے افغانستان سے فوج واپس بلانے کی تردید کر دی

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کی خبر کی تردید کردی۔

امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے فوج کی واپسی کے لیے پینٹاگون کو حکم نہیں دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اس طرح کی متضاد رپورٹس آئی تھیں کہ انہوں نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ 7 ہزار جوانوں کو افغان تنازع سے واپس بلا لے۔

مزید پڑھیں: امریکا کا افغانستان سے 50 فیصد سے زائد فوج واپس بلانے کا فیصلہ
امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان گیرٹ مارکیوس نے بذریعہ ای میل بیان میں کہا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو کم کرنے کا کوئی عزم ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کو ہدایت کی کہ وہ افغانستان سے فوجیوں کی کمی کے عمل کا آغاز کرے‘۔

واضح رہے یہ بیان امریکی محکمہ دفاع کے عہدیدار کے بیان کے ایک ہفتے سے زائد عرصے بعد سامنے آیا۔

اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فوج کے انخلا کی منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہ کیا تھا کہ پینٹاگون نے افغانستان میں 14 ہزار فوج میں سے 7 ہزار کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس فیصلے کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر رپورٹ کیا تھا، تاہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس کی تردید کردی گئی۔

دوسری جانب وائس آف امریکا نے رپورٹ کیا تھا کہ افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے افغان کمانڈر جنرل اسکوٹ ملر نے کہا تھا کہ انہیں فوجیوں کی تعداد میں تبدیلی سے متعلق کوئی احکامات نہیں ملے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے سامنے آنے والی خبروں کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ یہ فیصلہ امریکی عہدیدار زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان ابو ظہبی میں ہونے والی ملاقات میں سامنے آیا جو طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کی ایک کوشش تھی۔

مذکورہ ملاقات میں دیگر معاملات کے ساتھ طالبان کی جانب سے طویل عرصے سے کیے جانے والےفوجوں کے انخلا کے مطالبے پر بھی گفتگو کی گئی۔

خیال رہے کہ اس وقت امریکا کے 14 ہزار فوجی دستے افغانستان میں تعینات ہیں جو یا تو نیٹو مشن کے ساتھ افغان فوج کی حمایت کے لیے کام کررہے ہیں یا علیحدہ طور پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا افغانستان سے نکل جائے یا سوویت یونین کی طرح شکست کا سامنا کرے، طالبان

یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ دنوں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکا کو فوج کی تعداد میں کمی کے معاملے پر خبر دار کیا تھا کہ اگر انہوں نے افغانستان کو نہیں چھوڑا تو انہیں 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پر طالبان نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ امریکی فورسز کو ’ذلت‘ کا سامنا کرنا پڑا اور وہ سرد جنگ کے تجربے سے ’بہت کچھ سیکھ‘ گئے ہوں گے۔

تاہم اپنے بیان میں طالبان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے نصف کو واپس بلانے کے فیصلے سے متعلق خبروں پر باضابطہ طور پر جواب نہیں دیا تھا۔
خبریں نیوز کے ساتھ کلیم اللہ۔