اقبال‪ ‬اختر‪ ‬حسین‪ ‬کی‪ ‬کہانی

میں ھوں اقبال
اقبال اختر حسین

بانی سوشیوآن
آج میں آپکو اپنی زندگی کی پوری کہانی سنانے جا رھا ھوں
میں کون ھوں ؟ کیا تھا ؟ اور یہاں تک کیسے پہنچا ؟ میری پوری زندگی کے نشیب و فراز آج میں سب کچھ آپکے ساتھ شئیر کرنے جا رھا ھوں

1988 میں آٹھویں کلاس پاس کی تو سوچنے لگا کہ کچھ کرنا چاہے بہت سے دوست تھے جو آوارہ گرد تھے ان کے ساتھ بہت آواری گردی کی کیونکہ والد محترم لاہور سرکاری جاب کرتے تھے اس لیے زرا ڈھیل تھی امی کو تو کسی نہ کسی طریقے سے سنبھال ہی لیتے تھے کیونکہ وہ بہت پیار کرتی تھیں اور بہت سادہ تھیں الحمدللہ آج بھی دونوں ہمارے سروں پر موجود ہیں۔
جب ابو گھر آتے تو مجھ سے زیادہ شریف بچہ تو دنیا میں نہ ملتا کیونکہ جمعرات کو ہی امی کے پاؤں دبانا شروع کیونکہ امی کوئی شکایت نہ لگائیں جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی اور ابو رات کو گھر آ جاتے تھے۔گھر سے نویں کلاس کے لیے جانا اور دوستوں کے ساتھ فلمیں دیکھنا اور آوارہ گردی کرنا۔
ایک دفعہ بابا کو دو مہینے تنخواہ نہ ملی اور وہ دو ماہ گھر نہی آئے کیونکہ وہ رشوت نہی لیتے تھے اس لیے ان پر عتاب آیا ہی رہتا تھا کبھی سسپنٹ ہو جاتے تھے کیونکہ بہت غصے والے تھے لوگوں سے لڑ پڑتےتھے اگر کوئی بھی آفیسر پریشر ڈالتا تو وہ ناجائز کام نہی کرتے تھے کہتے تھے نوکری چھوڑ دوں گا نہ حرام کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا اس لیے آفس میں بنتی نہیں تھی۔ جب گھر آتے تو مجھے کہا کرتے تھے کہ بیٹا نوکری نہ کرنا ورنہ جیتے جی مر جاؤ گے اگر ضمیر مرا ہو تب کرنا وہ کبھی بھی اپنی تنخواہ کے علاوہ امی کو پیسے نہی دیتے تھے مجھے یاد ہے ان کی تنخواہ بتیس سو تھی وہ بائیس سو امی کو ہر مہینے دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے میرے بچوں کو ایک روپیہ حرام کا لقمہ نہ جائے اس لیے وہ امی کو ہر مہینے اپنی تنخواہ ہی دیتے تھے اور اپنا خرچہ رکھ لیتے تھے
وہ سیشن کورٹ میں بیلف تھے بہت پیسہ بنا سکتے تھے لیکن نہیں، ایمان قائم تھا اور اسی میں گزارہ کرتے تھے مجھے یاد ہے جب ان کی تنخواہ آتی تھی تو کریانہ والے اورگوشت والے کو دے کر کم ہی بچتی تھی اس میں بھی امی بچانے کے لیے کمیٹیاں وغیرہ ڈال کر کچھ جمع کر لیتی تھیں۔
جب دو مہینے تنخواہ نہی آئی اور خود بھی نہی آئے تو گھر کے حالات بگڑنے شروع ہو گے اور میں بڑا تھا اس لیے امی مجھ سے ہی مشورہ کرتی اور مجھے ہی بتاتی تھیں اور آیک دفعہ میری ماں روئی کیونکہ گھر میں لکڑیاں نہی تھیں اس وقت لکڑیاں ٹال سے خریدتے تھے- میں لکڑیاں لینے نکل کھڑا ہوا اور دو گھنٹے میں باہر سے سوکھی لکڑیاں لے کر آیا اور کھانا پکایا اور بھی بہت مشکلیں تھیں جیسا کہ عید پر ہم بہن بھائی سکول کی یونیفارم ہی خریدتے تھے تا کہ سکول میں بھی وہی پہن سکیں۔ ابا جی گھر آئے تو میں نے کہا میں کسی فیکٹری میں کام کروں گا انہوں نے کہا نہی تم پڑھو پہلے لیکن میں نے کہا میں پرائیویٹ میٹرک کر لوں گا آپ مجھے اجازت دیں۔ ابا جی نے کہا نہیں! نوکری نہیں کرنی اپنا کوئی کام کرو لیکن پیسے نہی تھے کام کرنے کے
انہوں نے کہا اگلے ہفتے آؤں گا تو پیسے دوں گا۔ میں نے اسی ہفتے ایک نوکری ڈھونڈی اور ایک رات ٹیکسٹائیل میں ڈیوٹی کی وہ بھی چار گھنٹے یہ میری زندگی کی پہلی اور آخری نوکری تھی۔
اقبال حسین اپنے والد محترم اور بچوں کے ہمراہ

اقبال حسین اپنے والد محترم اور بچوں کے ہمراہ

گھر آ کر ابا جی کا انتظار کرنے لگا وہ جمعرات کو آئے اور میں نے کہا میرے ساتھ فیصل آباد چلیں میں نے کام ڈھونڈھ لیا تھا، میں کپڑے کے کٹ پیس لاؤن گا اور گھر میں ہی بیچوں گا۔ مجھے یاد ہے میرے پاس تین ہزار روپیہ تھا کچھ امی نے دیا اور کچھ ابا جی نے میں اور والد صاحب فیصل آباد کے لیے صبح کی نماز پڑھ کر نکلے اور لال مل فیصل آباد پہنچ گئے پھر کپڑا ڈھونڈنا شروع کیا وہاں کپڑا تول کر ملتا تھا کیونکہ وہ رجیکشن ہوتی تھی لیکن گاؤں والوں کے لیے بہترین تھا سستا تھا ہم نے پچاس کلو کپڑا لیا اور رات کو گھر پہنچ گئے یہ میرا پہلا سفر تھا اتنا لمبا دوسرے شہر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ گھر آئے جتنے محلے دار تھے ان کے گھر جا کر بتایا کہ ہمارے گھر کپڑا آیا ہے بہت عورتیں دیکھنے آئیں اور ایک ہفتے میں کپڑا بک گیا اب میرے پاس ڈبل پیسے تھے اور مجھے پتا تھا کیا لانا ہے اسی طرح ہر ہفتے جمعہ کو اپنے والد صاحب کے ساتھ فیصل آباد آتا کپڑا خریدتا پورے چونیاں شہر میں ڈھول سے منادی کرواتا اور پورے شہر سے عورتیں آتیں اور کپڑا خریدتی اور میرا بزنس بڑھتا گیا اب لاکھوں میں کپڑا لے کر آتا اور بیچتا جو بچ جاتا وہ سائیکل پر رکھتا ایک دو ملازم یا دوست ساتھ لیتا دوسرے گاؤں میں جا کر مسجد میں اعلان کرواتا کہ کپڑا آیا ہے عورتیں آتی ایک جگہ اڈا لگاتا اور کپڑا بک جاتا اور پھر ایسا ایک سال تک چلتا رہا۔
پھر میں سادہ سفید کپڑا لانا شروع ہوا اور عورتوں کو کڑھائی کے لیے د