امریکی فوج کا شام سے انخلا: ترکی کی دھمکیوں کے بعد بھی شامی فوج اہم شمالی شہر میں داخل

شام میں حکومت حامی فوجیں ملک کے شمال میں واقع اہم شہر منبج میں گذشتہ چھ سال میں پہلی بار داخل ہوئی ہیں۔

یہ شہر کرد جنگجؤوں کے کنٹرول میں رہا ہے مگر امریکہ کے شام سے انخلا کے بعد امریکہ حامی کرد فورسز کو خوف تھا کہ ہمسایہ ملک ترکی ان کے خلاف کارروائی نہ شروع کر دے۔

اطلاعات کے مطابق شامی فوجوں نے کردوں کی درخواست پر اس شہر پر قبضہ کیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اردوغان کا شام میں اصل ہدف کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) ملیشیا ہے، جسے امریکہ نے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے لیے تربیت دی تھی۔

گذشتہ ہفتے امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ شام سے تقریباً 2000 فوجی واپس لے کر جا رہا ہے۔

اب ترکی دولتِ اسلامیہ کے بہانے کردوں کو نشانہ بنائے گا، یہ شک کردش فورسز کو شامی حکومت سے بظاہر تعاون کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی اپنی سرحد میں کرد جنگجو تنظیم وائی پی جی ملیشیا کے داخلے کا شدید مخالف ہے۔ ترکی کو اس بات کا خوف ہے کہ یہ تنظیم ترکی میں علیحدگی پسند کرد اقلیت کو مضبوط کرے گی۔

'کیا ترکی اکیلا شام سے دولت اسلامیہ کو ختم کر سکتا ہے؟'
ترکی کا کہنا ہے کہ وہ شام سے دولتِ اسلامیہ کی شکست کے بعد اس کی باقی ماندہ طاقت کو ختم کر سکتا ہے، تاہم ماہرین نے ترکی کے اس دعوے پر شک کا اظہار کیا ہے۔

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاویش اوغلو نے کہا ہے کہ ان کا ملک جلد سے جلد دریائے فرات کا مشرقی حصہ عبور کر کے شام کے شمال تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ترکی کو واشنگٹن کے حمایت یافتہ کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی کا اختیار مل جائے گا، تاہم تجزیہ نگاروں نے ترکی کی نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو شام سے ’نکالنے‘ کی صلاحیت پر شک کا اظہار کیا ہے۔