امریکہ افغانستان سے کیوں نکل رہا ہے؟

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس پیش رفت کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں اور اس سے خطے میں کس طرح کی تبدیلی آ سکتی ہے۔ یہی سمجھنے کے لیے ہم نے بی بی سی پشتو سروس کے داؤد اعظمی سے بات کی۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ اس فیصلے کا 17/18 دسمبر کو متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔ اگر یہ واقعی ان امن مذاکرات کا نتیجہ ہے تو پھر فی الحال کافی یکطرفہ نظر آ رہا ہے کیونکہ طالبان نے اب تک کسی طرح کی رعایت کا عندیہ نہیں دیا ہے۔

میرے خیال میں اس فیصلے کا تعلق دراصل امریکہ کی اندرونی سیاست سے، اور صدر ٹرمپ کی ’امریکہ سب سے پہلے‘ پالیسی سے ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سمیت تمام ممالک سے امریکی فوجوں کو واپس بلا لیں گے۔ پھر صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی فوجی مشیروں نے ان کا ذہن تبدیل کیا اور انہوں نے افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافہ کیا اور نیٹو اور دیگر اتحادیوں سے بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔

اس وقت افغانستان میں 14000 امریکی فوجی مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ نیٹو اور اتحادی ممالک کے تقریباً 8000 فوجی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ ان کا مرکزر کردار افغان فورسز کی تربیت اور مشاورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک اچھی خاصی تعداد انسداد دہشت گردی کے آپریشنز میں بھی شامل ہے، جن میں فضائی حلمے اور ڈرون حملے شامل ہیں۔

اس فیصلے سے افغان فورسز کی تربیت کے ساتھ ساتھ آپریشنز پر بھی براہ راست اثر پڑے گا