اسد شفیق میچ وننگ بیٹسمین کیوں نہیں ہیں؟

اسد شفیق نے آج سے آٹھ سال پہلے پاکستان کے لیے پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا اور اب تک وہ اپنے 66 میں سے 61 ٹیسٹ میچ لگاتار کھیل چکے ہیں اور اپنے ٹیسٹ کریئر میں 12 سنچریاں سکور کر چکے ہیں۔

اسد شفیق کو مبصرین اور ماہرین درست تکنیک کے حامل بلے بازوں میں شمار کرتے ہیں لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خود کو ایک ورلڈ کلاس بیٹسمین کے طور پر منوا نہیں سکے ہیں اور جب اس بارے میں ان سے سوال کیا جائے تو کوئی ٹھوس دلیل کی بجائے وہ یہ جواب دے دیتے ہیں کہ انھیں اس کی پروا نہیں ہے۔

کسی بھی بڑے بیٹسمین کی تعریف مختصراً یہی ہے کہ بیٹسمین جو اپنی ٹیم کو میچ جتوائے اور شکست سے بچائے وہی بڑا بیٹسمین ہوتا ہے۔
جاوید میانداد کے ٹیسٹ کرکٹ میں بنائے گئے 8832 رنز سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمینوں کی فہرست میں 17 ویں نمبر پر ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا انہیں ایک بہت بڑا بیٹسمین تسلیم کرتی ہے کیونکہ وہ میچ جتوانے کی کنجی بھی تھے اور میچ بچانے کی ڈھال بھی۔

انضمام الحق، یونس خان اور مصباح الحق بھی انھی دونوں خوبیوں سے مالا مال تھے اور انھیں حریف ٹیموں سے جیت حاصل کرنے اور شکست کو پرے دھکیلنے کا فن خوب آتا تھا۔

تو کیا اسد شفیق میں یہ دونوں خوبیاں نہیں ہیں؟

اسد شفیق کے کرئیر کا جائزہ لیں تو انھوں نے اپنے 66 میں سے 54 ٹیسٹ میچ مصباح الحق کی کپتانی میں کھیلے ہیں۔ انھوں نے اپنی 12 میں سے 10 سنچریاں مصباح الحق کی قیادت میں سکور کی ہیں۔

اسد شفیق کی 12 میں سے صرف چار سنچریاں ان 29 ٹیسٹ میچوں میں ہیں جو پاکستان جیتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان وہ چار ٹیسٹ میچز اسد شفیق کی تن تنہا میچ وننگ پرفارمنس سے جیتا ہو۔

2011 میں بنگلہ دیش کے خلاف چٹاگانگ ٹیسٹ میں پاکستان اننگز اور 184 رنز سے جیتا تھا پاکستان کی واحد اننگز میں یونس خان کی ڈبل سنچری اور محمد حفیظ کی سنچری بھی اسد شفیق کی سنچری کے ساتھ شامل تھی۔

2015 میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو ڈھاکہ ٹیسٹ میں 328 رنز سے شکست دی تھی لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے اسد شفیق کی سنچری میچ وننگ تھی کیونکہ اس اننگز میں اظہرعلی کی ڈبل سنچری اور یونس خان کی سنچری بھی موجود تھی۔

ُاسی سال گال ٹیسٹ میں اسد شفیق نے سنچری بنائی تھی اس اننگز میں ان کے علاوہ سرفراز احمد 96 اور ذوالفقار بابر 56 رنز بناکر نمایاں رہے تھے۔

2016 میں انگلینڈ کے خلاف اوول ٹیسٹ میں جو پاکستان 10 وکٹوں سے جیتا تھا پہلی اننگز میں اسد شفیق کی سنچری کے ساتھ ساتھ یونس خان کی ڈبل سنچری بھی شامل تھی۔

اسد شفیق کی 12 میں سے 6 سنچریاں ان 26 ٹیسٹ میچوں میں بنی ہیں جو پاکستان ہارا ہے اور ان چھ میں سے دو سنچریاں ایسی ہیں جن کے ذریعے وہ شکست کو جیت میں تبدیل کر سکتے تھے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔

گذشتہ سال آسٹریلیا کے خلاف برسبین میں پاکستان کو 490 رنز کا ہدف ملا تھا اور وہ 137 رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان کو جیت کے قریب لے آئے تھے لیکن ان کے آؤٹ ہونے کے نتیجے میں ٹیم صرف 39 رنز سے ٹیسٹ ہارگئی تھی۔

گذشتہ سال سری لنکا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں جیت کے لیے ملنے والے 317رنز کے ہدف کی کوشش میں ان کی سنچری ٹیم کو جیت کے قریب لے آئی لیکن 112 رنز پر آؤٹ ہو کر وہ ٹیم کو جیت سے 68 رنز دور کر گئے۔

یونس خان اور مصباح الحق کے جانے کے بعد اسد شفیق دس ٹیسٹ میچوں کی 18 اننگز میں 39 رنز کی اوسط سے سات سو چھ رنز ہی سکور کر پائے ہیں جن میں ان کی صرف دو سنچریاں شامل ہیں اور یہ وہ دو سنچریاں ہیں جو پاکستان کی شکست پر ختم ہونے والے ٹیسٹ میچوں میں بنی ہیں