بلاول بھٹو کو عمران خان پر شک ہے

اسلام آباد(24نیوز)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عمران خان انہی تنظیموں کیخلاف کارروائی کی کوشش کر رہا جن کے سہارے وزیر اعظم بنے،ان کی موجودہ کوششوں پر شک ہے، بہتر ہوتا اگر ایک ہی بار احتساب ہوتا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا،افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا۔

برطانوی ٹی وی کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر صحیح عمل ہوتا تو انڈیا کے پاس ہم پر انتہاپسندی کے الزامات لگانے کا جواز نہ ہوتا اور ہمارے پاس دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے انتہاپسندوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا ثبوت بھی موجود ہوتا،میں پرامید ہوں کہ اس بار یہ کالعدم تنظیموں کیخلاف کریک ڈاون صحیح معنوں میں ہو گا۔ میری خواہش ہے کہ اس بار نیشنل ایکشن پلان پر مسلسل عمل ہو۔

بلاول نے کہا کہ اس معاملے پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو فوری طور پر فعال کرنا چاہیے۔ ’موجودہ حکومت کی اس کاوش پر تھوڑا شک اس لیے ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے جو الیکشن لڑا تھا ، وہ ایسی کالعدم جماعتوں کے تعاون سے لڑا تھا،اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے اپنی جماعت سے ایسے وزیروں کو باہر کرنا ہو گا جو ان جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں-

انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس بار وزیر اعظم عمران خان اپنے اس بیان پر قائم رہیں گے کہ وہ ایسے عناصر کا مقابلہ کریں گے،افسوس سے کہنا پڑے گا کہ نریندر مودی اب بھی پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پلوامہ میں نیم فوجی دستے پر ہونے والے حملے کو وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی لیے استعمال کر رہے ہیں،یہ بات شرمناک اور افسوس ناک ہے کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی ہندو انتہا پسندی کی سیاست کھیل رہے ہیں۔ اگر انڈیا کا وزیراعظم دو نیوکلیئر ملکوں کے درمیان جنگ کا ماحول پیدا کر کے، اور دہشت گردی کو سیاست کے لیے استعمال کر رہا ہے تو یقینا آئندہ آنے والے انتخابات میں انھیں اس کا فائدہ نظر آ رہا ہو گا۔

بلاول بھٹو سے جب پوچھا گیا کہ وہ احتساب سے کتراتے کیوں ہیں تو انھوں نے کہا کہ بہتر ہوتا اگر ایک ہی بار احتساب ہوتا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ ہماری جماعت نے ایوب خان سے لے لر ضیا الحق تک یہی سنا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ نوے کی دہائی میں جو پولیٹیکل انجینئرنگ کی گئی اور جس طرح انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں گئیں، وہ سب دیکھا ہے۔آج بھی اگر احتساب جمہوری پسند سیاست دانوں کے لیے نہیں ہوتا، قانون کی بالادستی قائم رہتی تو کسی کو کوئی مسئلہ نہ ہوتا لیکن پیپلزپارٹی کے خلاف جو سازشیں چل رہی ہیں، اس میں ملکی آئین کی پاسداری نہیں کی جا رہی،آئین کا آرٹیکل 10 اے ہر شہری کو آزاد اور شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ یہ سب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت پاکستان میں انسانی اور جمہوری حقوق کا بحران ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کے تمام ادرارے اپنی آئینی حدود میں کام کر رہے ہیں، یہ کہنا بالکل جھوٹ ہو گا۔ کسی بھی جمہوریت میں ادارے اس طرح کام نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ ڈیم بنائے، اس کا کام انصاف فراہم کرنا ہے۔اس سب کے درمیان پارلیمنٹ اپنا اصل مقام کھو بیٹھی ہے جسے اسے دوبارہ قائم کرنا ہو گا۔