محرم الحرام اور عاشورہ کی فضیلت اور تاریخی پس منظر

muharram_or_ashura_ki_fazeelat

اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے بنائے ہیں اور اپنے فضل وکرم سے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطاء فرمائی ہے۔ اِ ن مہینوں میں محرم الحرام کا مہینہ بھی ایسا ہی ہے جس کو قرآن کریم نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہےاور پھر محرم الحرام میں محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ”عاشورا“ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ”دسواں دن“ یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے۔ عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ محرم کا تقدس واحترام اور اس کی وجہ حُرمت صرف سیدنا حسین ؓ کی شہادت ہے حالانکہ یہ بات حقائق سے بالکل منافی اور درست نہیں ہے۔ اصل میں محرم الحرام کی فضیلت وتقدس شہادتِ حسین ؓ اور وقوع کر بلا کے باعث نہیں۔ دین اسلام میں اس مہینے کی فضیلت اسلام سے قبل کے ادیان میں بھی چلی آرہی تھی، ایک تویہ کہ محرم کا شمار ان چار اشہر الحرم میں سے ہوتا ہے جن کا ذکر قرآن کریم نے یوں کیا ہے ”بے شک اللہ کے ہاں اللہ کے علم میں مہینوں کی تعداد اُس دن سے بارہ ہے جب سے اللہ نے زمین وآسمان پیدا کیئے اور ان میں سے چار عزت والے ہیں“۔ ان چار مہینوں سے مراد احادیث ومفسرین کے اقوال کی رُو سے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، اور رجب ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ اِن مہینوں کی عزت وحرمت پہلے ہی سے دین ابراہیمی میں بھی چلی آرہی تھی حتیٰ کہ مکہ والے بھی ان مہینوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے خصوصاً محرم کو بہت محترم مہینہ سمجھے تھے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ ”زمانہ جاہلیت میں قریش بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے“۔ جب اسلام آیا تو اس میں بھی یہی عزت وحُرمت برقرار رہی۔ نبی کریم ﷺ کے علم میں جب سے یہ بات آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ”ہم موسیٰ ؑ کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم (یہودیوں) سے ذیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم (عاشورہ) کا روزہ رکھا اور صحابہ کرامؓ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ اپنی حیات میں عاشورہ کا روزہ رکھا مگر رحلت فرمانے  سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تھا تو آپ نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی،اس لیئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا یعنی 9محرم یا 11محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔

Tahir ج