12291 - مسند احمد

Musnad Ahmed - Hadees No: 12291

Hadith in Arabic

۔ (۱۲۲۹۱)۔ عن عَمْرِو بْنِ مَیْمُٔونٍ قَالَ: إِنِّی لَجَالِسٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ أَتَاہُ تِسْعَۃُ رَہْطٍ، فَقَالُوْا: یَا أَبَا عَبَّاسٍ! إِمَّا أَنْ تَقُومَ مَعَنَا، ٔوَإِمَّا أَنْ یُخْلُونَا ہٰؤُلَائِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلْ أَقُومُ مَعَکُمْ، قَالَ: وَہُوَ یَوْمَئِذٍ صَحِیحٌ قَبْلَ أَنْ یَعْمٰی، قَالَ فَابْتَدَء ُوا فَتَحَدَّثُوا فَلَا نَدْرِی مَا قَالُوْا، قَالَ: فَجَائَ یَنْفُضُ ثَوْبَہُ وَیَقُولُ: أُفْ وَتُفْ وَقَعُوا فِی رَجُلٍ لَہُ عَشْرٌ، وَقَعُوا فِی رَجُلٍ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا یُخْزِیہِ اللّٰہُ أَبَدًا، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔)) قَالَ: فَاسْتَشْرَفَ لَہَا مَنِ اسْتَشْرَفَ، قَالَ: ((أَیْنَ عَلِیٌّ؟)) قَالُوْا: ہُوَ فِی الرَّحْلِ یَطْحَنُ، قَالَ: وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِیَطْحَنَ، قَالَ: فَجَائَ وَہُوَ أَرْمَدُ لَا یَکَادُیُبْصِرُ، قَالَ: فَنَفَثَ فِی عَیْنَیْہِ ثُمَّ ہَزَّ الرَّایَۃَ ثَلَاثًا فَأَعْطَاہَا إِیَّاہُ، فَجَائَ بِصَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُورَۃِ التَّوْبَۃِ، فَبَعَثَ عَلِیًّا خَلْفَہُ فَأَخَذَہَا مِنْہُ، قَالَ: ((لَا یَذْہَبُ بِہَا إِلَّا رَجُلٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) قَالَ: وَقَالَ لِبَنِی عَمِّہِ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) قَالَ: وَعَلِیٌّ مَعَہُ جَالِسٌ فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، قَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) قَالَ: فَتَرَکَہُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) فَأَبَوْا قَالَ: فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، فَقَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) َقَالَ: وَکَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِیجَۃَ، قَالَ: وَأَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَوْبَہُ فَوَضَعَہُ عَلٰی عَلِیٍّ وَفَاطِمَۃَ وَحَسَنٍ وَحُسَیْنٍ فَقَالَ {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} قَالَ: وَشَرٰی عَلِیٌّ نَفْسَہُ لَبِسَ ثَوْبَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَامَ مَکَانَہُ، قَالَ: وَکَانَ الْمُشْرِکُونَ یَرْمُونَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ وَعَلِیٌّ نَائِمٌ، قَالَ: وَأَبُو بَکْرٍ یَحْسَبُ أَنَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَیْمُونٍ فَأَدْرِکْہُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ فَدَخَلَ مَعَہُ الْغَارَ، قَالَ: وَجَعَلَ عَلِیٌّیُرْمٰی بِالْحِجَارَۃِ کَمَا کَانَ یُرْمٰی نَبِیُّ اللّٰہِ وَہُوَ یَتَضَوَّرُ قَدْ لَفَّ رَأْسَہُ فِی الثَّوْبِ لَا یُخْرِجُہُ حَتّٰی أَصْبَحَ، ثُمَّ کَشَفَ عَنْ رَأْسِہِ فَقَالُوْا: إِنَّکَ لَلَئِیمٌ کَانَ صَاحِبُکَ نَرْمِیہِ فَلَا یَتَضَوَّرُ، وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ، وَقَدِ اسْتَنْکَرْنَا ذٰلِکَ، قَالَ: وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: أَخْرُجُ مَعَکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ نَبِیُّ اللّٰہِ: ((لَا۔)) فَبَکٰی عَلِیٌّ، فَقَالَ لَہُ: ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، إِنَّہُ لَا یَنْبَغِی أَنْ أَذْہَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِیفَتِی)) قَالَ: وَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ: أَنْتَ ((وَلِیِّی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی۔)) وَقَالَ: ((سُدُّوا أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ۔)) فَقَالَ: فَیَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَہُوَ طَرِیقُہُ لَیْسَ لَہُ طَرِیقٌ غَیْرُہُ، قَالَ: وَقَالَ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَإِنَّ مَوْلَاہُ عَلِیٌّ۔)) قَالَ: وَأَخْبَرَنَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ أَنَّہُ قَدْ رَضِیَ عَنْہُمْ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ، فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ، ہَلْ حَدَّثَنَا أَنَّہُ سَخِطَ عَلَیْہِمْ بَعْدُ، قَالَ: وَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ حِینَ قَالَ: ائْذَنْ لِی فَلْأَضْرِبْ عُنُقَہُ، قَالَ: ((أَوَکُنْتَ فَاعِلًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ إِلٰی أَہْلِ ٔبَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۳۰۶۱)

Hadith in Urdu

عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ نوآدمی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے کہا: اے ابو العباس! یا تو آپ اٹھ کر ہمارے ساتھ چلیں یا یہ لوگ اٹھ جائیں اور ہمیں خلوت دیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: میں تمہارے ساتھ اٹھ جاتا ہوں، عمر و بن میمون کہتے ہیں: ان دنوں سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما صحت مند تھے، یہ ان کے نابینا ہونے سے قبل کی بات ہے، عمرو کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ابتداء کرتے ہوئے بات کی، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا؟ کچھ دیر بعد سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آگئے، وہ کہہ رہے تھے، ہائے افسوس یہ لوگ اس آدمی پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، جسے دس امتیازات حاصل ہیں، یہ اس شخصیت پر معترض ہیں، جس کی بابت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں اب ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جسے اللہ کبھی ناکام نہیں کرے گا، وہ اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: آپ کی یہ بات سن کر بہت سے لوگوں نے گردنیں اوپر کو اٹھائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہاں ہیں؟ بتانے والے نے بتایا کہ وہ اپنے خیمے میں آٹا پیس رہے ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: اب تم میں سے کوئی آدمی یہ کام نہیں کرتا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور وہ دیکھ بھی نہ سکتے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھو ںمیں لعاب ڈالا، پھر جھنڈے کو تین بار لہرا کر ان کے حوالے کیا، وہ فتح یاب واپس ہوئے اور قیدیوں میں صفیہ بنت حیی بھی تھیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فلاں آدمی کو سورۃ التوبہ دے کر روانہ کیا، اس کے بعد علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے پیچھے روانہ فرمایا، انہوں نے جا کر اس سے سورۃ التوبہ لے لی، اور آپ نے فرمایا تھا اس سورت کو ایسا آدمی لے جائے، تو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی برادری سے فرمایا تھا کہ تم میں سے کون ہے جو دنیا اور آخرت میں میرا ساتھ دے اور میرے ساتھ رہے؟ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہیں بیٹھے تھے، لوگوں نے انکار کیا تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں دنیا اور آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا اور آخرت میں تم میرے ساتھ ہی ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں چھوڑ کر دوسرے آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا تم میں سے کون دنیا اور آخرت میں میرا ساتھ دے گا؟ لوگوں نے انکار کیا تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں دنیا اور آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں گا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے ساتھی ہو، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا کہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بعد انہوں نے ہی سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا کپڑا چادر لے کر علی، فاطمہ، حسن اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے اوپر ڈال دی اور فرمایا: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا}… اللہ تعالیٰ تو صرف یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیت ! تم سے پلیدی دور کر دیں اور تمہیں مکمل طور پر پاک کر دیں۔ (سورۂ احزاب: ۳۳) اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ یوں پیش کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لباس زیب تن کر کے ان کی جگہ پر سوگئے، اور مشرکین رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتھر مار رہے تھے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوئے ہوئے تھے، انہوں نے سمجھا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں، انہوں نے کہا، اے اللہ کے نبی! تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اللہ کے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو بئر میمون ایک کنویں کا نام ہے، کی طرف تشریف لے گئے ہیں، آپ بھی ان کے پاس چلے جائیں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی پیچھے پہنچ گئے، ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ساتھ چلے اور آپ کے ہم راہ غار میں جا داخل ہوئے، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی اسی طرح پتھر مارے گئے جیسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مارے جاتے تھے، اور وہ کپڑے ہی میں کپڑے کے نیچے ہی الٹ پلٹ رہے تھے انہوں نے اپنا سر کپڑے میں اچھی طرح چھپا لیا، سر کو باہر نہ نکالتے تھے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، اس کے بعد انہوں نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، تو مشرکین نے کہا تم بڑے ذلیل ہو، ہم تمہارے ساتھی کو پتھر مارتے تھے تو وہ اس طرح الٹتے پلٹتے نہ تھے اور تم تو پتھر لگنے پر الٹے سیدھے ہوتے تھے، اور ہمیں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی تھی، اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کو ساتھ لیے تبو ک کی طرف روانہ ہوئے، تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں بھی آپ کے ہمراہ جاؤں گا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انکار کردیا تو وہ رونے لگے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو، میں جاؤں تو تم میرے خلیفہ نائب کی حیثیت سے یہاں رہو، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تھا میرے بعد تم ہر مومن کے دوست ہو، نیز فرمایا تھا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دروازے کو چھوڑ کر باقی تم سب لوگ اپنے اپنے دروازے بند کردو،تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جنابت کی حالت میں بھی مسجد میں داخل ہوجاتے تھے، کیونکہ ان کا ا س کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا، نیز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کا میں دوست ہوں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کا دوست ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن میں بتلایا کہ کہ وہ اصحاب الشجرہ یعنی صلح حدیبیہ کے موقعہ پر درخت کے نیچے رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے راضی ہے، اور ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ تھا اللہ اس سے بھی واقف ہے، کیا اللہ نے اس کے بعد کسی موقعہ پر فرمایا کہ اب وہ ان سے ناراض ہے؟ نیز جب عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک شخص حاطب بن ابی بلقعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کہا اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑادوں تو اللہ کے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: کیا تم ایسا کرو گے، تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر ڈالی اور فرمایا اب تم جو چاہو کرتے رہو، تمہارا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

Hadith in English

.

Previous

No.12291 to 13341

Next
  • Book Name Musnad Ahmed
  • Hadees Status ضعیف
  • Takhreej (۱۲۲۹۱) تخریج: اسنادہ ضعیف بھذہ السیاقۃ، ابو بلج یحیی بن سلیم یقبل حدیثہ فیما لا ینفرد بہ، اخرجہ الحاکم: ۳/ ۱۳۲(انظر: ۳۰۶۱)