12162 - مسند احمد

Musnad Ahmed - Hadees No: 12162

Hadith in Arabic

۔ (۱۲۱۶۲)۔ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِیْ خُطْبَۃٍ خَطَبَہَا عَلٰی مِنْبَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَمْنَ خِلَافَتِہٖ،مِنْہَاقَوْلُہٗ: وَقَدْبَلَغَنِی أَنَّ قَائِلًا مِنْکُمْ یَقُولُ: لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَایَعْتُ فُلَانًا، فَلَا یَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ یَقُولَ: إِنَّ بَیْعَۃَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَتْ فَلْتَۃً، أَلَا وَإِنَّہَا کَانَتْ کَذَلِکَ، أَلَا وَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَقٰی شَرَّہَا، وَلَیْسَ فِیکُمُ الْیَوْمَ مَنْ تُقْطَعُ إِلَیْہِ الْأَعْنَاقُ مِثْلُ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَلَا وَإِنَّہُ کَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلِیًّا وَالزُّبَیْرَ وَمَنْ کَانَ مَعَہُمَا تَخَلَّفُوا فِی بَیْتِ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَخَلَّفَتْ عَنَّا الْأَنْصَارُ بِأَجْمَعِہَا فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ، وَاجْتَمَعَ الْمُہَاجِرُونَ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَبَا بَکْرٍ! انْطَلِقْ بِنَا إِلٰی إِخْوَانِنَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نَؤُمُّہُمْ حَتّٰی لَقِیَنَا رَجُلَانِ صَالِحَانِ، فَذَکَرَا لَنَا الَّذِی صَنَعَ الْقَوْمُ، فَقَالَا: أَیْنَ تُرِیدُونَ؟یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! فَقُلْتُ: نُرِیدُ إِخْوَانَنَا ہٰؤُلَائِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: لَا عَلَیْکُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوہُمْ وَاقْضُوْا أَمْرَکُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَنَأْتِیَنَّہُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی جِئْنَاہُمْ فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ، فَإِذَا ہُمْ مُجْتَمِعُونَ، وَإِذَا بَیْنَ ظَہْرَانَیْہِمْ رَجُلٌ مُزَمَّلٌ، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقَالُوْا: سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ، فَقُلْتُ: مَا لَہُ؟ قَالُوْا: وَجِعٌ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَامَ خَطِیبُہُمْ، فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکَتِیبَۃُ الْإِسْلَامِ، وَأَنْتُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! رَہْطٌ مِنَّا، وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّۃٌ مِنْکُمْ، یُرِیدُونَ أَنْ یَخْزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَیَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، فَلَمَّا سَکَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ وَکُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَۃً أَعْجَبَتْنِی، أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَہَا بَیْنَیَدَیْ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَقَدْ کُنْتُ أُدَارِی مِنْہُ بَعْضَ الْحَدِّ، وَہُوَ کَانَ أَحْلَمَ مِنِّی وَأَوْقَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: عَلٰی رِسْلِکَ، فَکَرِہْتُ أَنْ أُغْضِبَہُ وَکَانَ أَعْلَمَ مِنِّی وَأَوْقَرَ، وَاللّٰہِ! مَا تَرَکَ مِنْ کَلِمَۃٍ أَعْجَبَتْنِی فِی تَزْوِیرِی إِلَّا قَالَہَا فِی بَدِیہَتِہِ، وَأَفْضَلَ حَتّٰی سَکَتَ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَمَا ذَکَرْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَأَنْتُمْ أَہْلُہُ، وَلَمْ تَعْرِفْ الْعَرَبُ ہٰذَا الْأَمْرَ إِلَّا لِہٰذَا الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ، ہُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا، وَقَدْ رَضِیتُ لَکُمْ أَحَدَ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ أَیَّہُمَا شِئْتُمْ، وَأَخَذَ بِیَدِی وَبِیَدِ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ، فَلَمْ أَکْرَہْ مِمَّا قَالَ غَیْرَہَا، وَکَانَ وَاللّٰہِ! أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِی، لَا یُقَرِّبُنِی ذٰلِکَ إِلٰی إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلٰی قَوْمٍ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَّا أَنْ تَغَیَّرَ نَفْسِی عِنْدَ الْمَوْتِ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَاالْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌیَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! فَقُلْتُ لِمَالِکٍ: مَا مَعْنَی أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ؟ قَالَ: کَأَنَّہُ یَقُولُ: أَنَا دَاہِیَتُہَا، قَالَ: وَکَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتّٰی خَشِیتُ الِاخْتِلَافَ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ یَدَکَیَا أَبَا بَکْرٍ! فَبَسَطَ یَدَہُ فَبَایَعْتُہُ وَبَایَعَہُ الْمُہَاجِرُونَ، ثُمَّ بَایَعَہُ الْأَنْصَارُ، وَنَزَوْنَا عَلٰی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْہُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدًا، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللّٰہُ سَعْدًا، وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَمَا وَاللّٰہِ! مَا وَجَدْنَا فِیمَا حَضَرْنَا أَمْرًا ہُوَ أَقْوٰی مِنْ مُبَایَعَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، خَشِینَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَکُنْ بَیْعَۃٌ أَنْ یُحْدِثُوا بَعْدَنَا بَیْعَۃً، فَإِمَّا أَنْ نُتَابِعَہُمْ عَلٰی مَا لَا نَرْضٰی، وَإِمَّا أَنْ نُخَالِفَہُمْ فَیَکُونَ فِیہِ فَسَادٌ، فَمَنْ بَایَعَ أَمِیرًا عَنْ غَیْرِ مَشْوَرَۃِ الْمُسْلِمِینَ، فَلَا بَیْعَۃَ لَہُ وَلَا بَیْعَۃَ لِلَّذِی بَایَعَہُ تَغِرَّۃً أَنْ یُقْتَلَا، قَالَ مَالِکٌ: وَأَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّ الرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ لَقِیَاہُمَا عُوَیْمِرُ بْنُ سَاعِدَۃَ وَمَعْنُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: وَأَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ الَّذِی قَالَ: أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ، الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ۔ (مسند احمد: ۳۹۱)

Hadith in Urdu

سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے دور خلافت میں منبرِ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایک خطبہ دیا، اس میں آپ نے یہ بھی کہا تھا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ اگر عمر فوت ہوجائیں تو میں فلاں کی بیعت کروں گا اور کوئی آدمی یہ دھوکا نہ کھائے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت اچانک ہوئی تھی، خبردار! اگرچہ وہ اسی طرح ہی ہوئی تھی، لیکن خبردار! اللہ تعالیٰ نے اچانک ہونے والی بیعت کے شر سے محفوظ رکھا، آج تمہارے اندر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جیسا ایک بھی آدمی نہیں ہے، جسے دیکھنے کے لیے دور دراز کے سفر کیے جائیں، یا د رکھو جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہم سب سے افضل تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھ والے افراد دختر رسول سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر چلے گئے اور تمام انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور مہاجرین ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف روانہ ہوگئے، میں نے ان سے کہا: اے ابو بکر! آؤانصاری بھائیوں کی طرف چلیں، ہم ان کا قصد کر کے ان کی طرف روانہ ہو گئے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے اور انہوں نے ہمیں لوگوں کے عمل سے مطلع کیا اور انہوں ے پوچھا: اے مہاجرین! تم کدھر جارہے ہو؟ میں نے کہا: ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جارہے ہیں۔ ان دونوں نے کہا: اے مہاجرین کی جماعت! اگر تم ان کے ہاں نہ جاؤ اور اپنا معاملہ خودہی حل کر لو تو تم پر کوئی حرج نہیں ہوگا۔ لیکن میں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان کے پاس ضرور جائیں گے، پس ہم آگے چل دیئے، یہاں تک کہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس پہنچ گئے، وہ لوگ جمع تھے، ان کے درمیان سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ میں نے کہا: ان کو کیا ہوا ہے؟لوگوں نے بتلایا کہ یہ بیمار ہیں، جب ہم بیٹھ گئے تو ان کا ایک مقرر کھڑا ہوا، اس نے اللہ کی کما حقہ حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد اس نے کہا:ہم اللہ تعالیٰ کے انصار اور اسلامی لشکر ہیں اور اے مہاجرو! تم ہمارا ہی چھوٹا سا حصہ ہو، تم میں سے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے مقام سے نیچے گرادیں اور ہمیں حکمرانی سے محروم کردیں، جب وہ آدمی خاموش ہوا تو میرا (عمر) نے بھی ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی موجودگی میں کچھ کہنے کا ارادہ کیا، میں ایک مقالہ یعنی تقریر تیار کر چکا تھا، وہ خود مجھے بھی خوب اچھی لگ رہی تھی، میں کسی حد تک ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے جھجکتا تھا، وہ مجھ سے زیادہ با حوصلہ اور باوقار تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے فرمایا: ذرا ٹھہر جاؤ، میں نے ان کو ناراض کرنا اچھا نہ سمجھا، جبکہ وہ مجھ سے زیادہ صاحب علم اور صاحب وقا رتھے، اللہ کی قسم! میں اپنی تیار کردہ تقریر میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فی البدیہ وہ سب کچھ کہہ دیا، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے، پھر انھوں نے کہا: اے انصار! تم نے جس فضلیت اور خوبی کا تذکرہ کیا ہے، تم واقعی اس کے اہل ہو، لیکن عرب لوگ خلافت کے فضلیت و شرف کا مستحق صرف قریش کو ہی سمجھتے ہیں، وہ اپنے نسب اور سکونت کے لحاظ سے تمام عرب سے اعلیٰ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے میں (عمر) کااور سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا:میں تمہارے لیے ان دو آدمیوں کا انتخاب کر رہا ہوں، تم ان میں سے جسے چاہو اپنا امیر مقرر کر لو، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جتنی باتیں کی تھیں، ان میں سے مجھے صرف یہی بات ناگوار گزری تھی، اللہ کی قسم! اگر مجھے آگے لایا جاتا اور میری گردن اڑادی جاتی اور کوئی سابھی گناہ مجھے اس مقام تک نہ لے جاتا، یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہوتے ہوئے کسی قوم کا امیر بن جاؤں،انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا: میں وہ آدمی ہوں، جس سے اس معاملے کی شفا حاصل کی جا سکتی ہے اور میں ہی وہ شخص ہوں، جس کی طرف اس معاملے میں رجوع ہونا چاہیے، بس اے قریش کی جماعت! ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم میں سے۔ میں نے امام مالک سے کہا: مَا مَعْنٰی أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ کا کیا معنی ہے؟ انھوں نے کہا: شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ میں ہی معاملہ فہم ہوں اور اس چیز کا شعور رکھتا ہوں۔ اس پر شور مچ گیا ور آوازیں بلند ہوگئیں، یہاں تک کہ مجھے لڑائی کا خدشہ ہو گیا، میں نے کہا: اے ابوبکر! آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں، انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا،میں نے ان کی بیعت کرلی اور مہاجرین نے بھی ان کی بیعت شروع کر دی، اس کے بعد انصار نے بھی ان کی بیعت کرلی، بیچ میں ہم نے سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اوپر ہجو م کیا، ان میں سے ایک نے کہا: تم نے سعد کو قتل کر دیا ہے۔میں نے کہا: اللہ سعد کو قتل کرے۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں جس قدر بھی امور پیش آئے، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت سے بڑھ کر ہم نے کسی امر کو زیادہ قوی نہیں پایا، ہمیں اندیشہ تھا کہ اگر ہم لوگوں کو چھوڑ گئے اور بیعت نہ ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ کوئی اور بیعت کرلیں، تب یا تو ہم ان سے ایسے امر پر بیعت کریں گے، جو ہمیں پسند نہیں ہو گا، یا ہم ان کی مخالفت کریں گے تو فساد مچ جائے گا، جو آدمی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی امیر کی بیعت کر لے، اس کی بیعت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، اسی طرح جس کے حق میں بیعت کی گئی ہو گی، وہ بھی غیر معتبر ہو گا، یہ دونوں بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا قتل کر دئیے جانے کے حقدار ہوں گے۔ امام مالک نے کہا: مجھے ابن شہاب نے عروہ بن زبیر سے بیان کیا کہ جو دو آدمی راستے میں ملے تھے وہ سیدنا عویمر بن ساعدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معمر بن عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ابن شہاب نے کہا: سعید بن مسیب نے مجھے بیان کیا کہ جس آدمی نے یہ بات کی تھی کہ میں وہ آدمی ہوں، جس سے اس معاملے کی شفا حاصل کی جا سکتی ہے اور میں ہی وہ شخص ہوں، جس کی طرف اس معاملے میں رجوع ہونا چاہیے۔ وہ سیدنا حباب بن منذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔

Hadith in English

.

Previous

No.12162 to 13341

Next
  • Book Name Musnad Ahmed
  • Hadees Status صحیح
  • Takhreej (۱۲۱۶۲) تخریج: اخرجہ البخاری: ۳۴۴۵، ۴۰۲۱، ۶۸۲۹، ۶۸۳۰، ۷۳۲۳، ومسلم: ۱۶۹۱ (انظر: ۳۹۱)