2171 - السلسلةالصحیحة

Al-Silsila-tus-Sahiha - Hadees No: 2171

Hadith in Arabic

عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّامِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانُ: فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ: أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُمْ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلٌ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ فَوَاللهِ! لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَقُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا قَالَ: وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْكَلِمَةِ قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟! قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُـكُمْ إِيَّاهُ؟ قُلـتُ: الْحَـرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ: مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ: اعْبُدُوا اللهَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِـهِ شَـيْئًا وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ: فَذَكَرْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ: رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا قُلْتُ: فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ: رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ وَسَأَلْتُكَ: أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ أَمْرُ الْإِيمَانِ، حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ: أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَغْدِرُ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ: بِمَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌الَّذِي بَعَثَ بِهِ دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ.. بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ وَرَسُولِهِ، إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ (۶۴) (آل عمران) قَالَ أَبُو سُفْيَانُ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ، كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ وَكَانَ ابْنُ النَّاظُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفًّا عَلَى نَصَارَى الشَّامِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حَيْث قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ: قَدِ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ قَالَ ابْنُ النَّاظُورِ: وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ؟ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ فَلَا يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنَ الْيَهُودِ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ: اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا؟ فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنِ الْعَرَبِ فَقَالَ: هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ: هَذَا مُلْكُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ: فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ! هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ: وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ: فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ؟ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنَ الْإِيمَانِ قَالَ: رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ: إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ

Hadith in Urdu

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے خبر دی کہ ابو سفیان بن حرب‌رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے اس کی طرف پیغام بھیجا وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے مابین صلح حدیبیہ کے دوران شام میں تجارت کی غرض سے آیا تھا، وہ لوگ ہر قل کے پاس آئے۔ وہ اس وقت ایلیاء میں تھے۔ اس نے انہیں اپنے دربار میں بلایا، اس کے ارد گرد روم کے سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر انہیں بلایا اور اپنے ترجمان کو بھی بلایا، ہر قل کہنے لگا: تم میں اس شخص کا قریبی کون ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابو سفیان نے کہا: میں نسبی لحاظ سے اس کا قریبی ہوں۔ ہرقل نے کہا: اسے میرے قریب کر دو، اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کر کے اس کے پیچھے کھڑا کر دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو: میں اس شخص سے سوال کروں گا، اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو اسے جھٹلا دینا۔ واللہ اگر مجھے اس بات کی حیا نہ ہوتی کہ یہ میرے بارے میں جھوٹ کا عیب نقل کریں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جھوٹ بولتا، پھر سب سے پہلا سوال اس نے یہ کیا کہ :تم میں اس کا نسب کیسا ہے؟ابوسفیان: وہ ہم میں اچھے نسب والا ہے۔ ہرقل : کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہے؟ ابوسفیان: نہیں ۔ہر قل: کیا اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ ابوسفیان: نہیں ۔ہرقل: امیر لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا(غریب) کمزور لوگوں نے؟ ابو سفیان:کمزور لوگوں نے ۔ہر قل: وہ لوگ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم؟ ابو سفیان: وہ زیادہ ہو رہے ہیں۔ ہر قل: کیا ان میں سے کوئی شخص اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس کے دین کو نا پسند کرتے ہوئے مرتد ہوا ہے، ؟ابو سفیان: نہیں۔ ہر قل: وعدہ خلافی کرتا ہے؟ ابو سفیان: نہیں، ابھی ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کیا کرے گا؟ ابو سفیان نے کہا کہ: مجھے اس بات کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں ملی جو میں آپ کی شان میں تنقیص کےلئےکہتا۔ ہر قل: کیا تم نے اس سے لڑائی کی ہے؟ ابو سفیان: جی ہاں۔ ہر قل:تمہاری اس سے لڑائی کا کیا نتیجہ نکلا؟ ابو سفیان: ہمارے درمیان جنگ برابر ہی رہی،کبھی انہوں نے نقصان پہنچایا،کبھی ہم نے۔ ہر قل: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ابو سفیان: وہ کہتا ہے کہ : اللہ وحدہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور تمہارے باپ دادا جو کہتے ہیں اسے چھوڑ دو، وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ ہر قل نے ترجمان سے کہا: اس سے کہو: میں نے تم سے اس کے نسب کے بارے میں سوال کیا،تو تم نے کہا کہ: وہ ہم میں اچھے نسب والا ہے، رسول اسی طرح ہوتے ہیں، اپنی قوم کے اعلیٰ نسب میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ میں نے تم سے سوال کیا: کیا یہ بات تم میں سے کسی نے پہلے بھی کہی ہے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں، میں نے سوچا اگر اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہوتی تو میں کہتا یہ شخص ایسے قول کی پیروی کر رہا ہے جو پہلے کہا جا چکا ہے۔ میں نے تم سے سوال کیا: کیا اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تم نے کہا: نہیں میں نے سوچا اگر اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا :ایسا شخص ہے جو اپنے بزرگوں کی بادشاہت کا متلاشی ہے۔ میں نے تم سے سوال کیا کہ کیا یہ بات کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تم نے کہا: نہیں، مجھے معلوم ہوگیا کہ جو شخص لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح جھوٹ بول سکتا ہے۔ میں نے تم سے سوال کیا: طاقتور لوگوں نے اس کی پیروی کی یا کمزور لوگوں نے ؟تو تم نے کہا: کہ کمزور لوگوں نے اس کی پیروی کی اور یہی لوگ رسولوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے سوال کیا کہ کیا یہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے کہا :کہ یہ زیادہ ہورہے ہیں۔ ایمان کا معاملہ اسی طرح رہتا ہے جب تک مکمل نہ ہو جائے۔ میں نے تم سے سوال کیا: کیا کوئی شخص اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد ناراض ہو کر مرتد ہوا ہے؟ تو تم نے کہا کہ : نہیں۔ ایمان کا معاملہ اسی طرح ہوتا ہے، جب وہ دلوں کے میں رچ بس جاتا ہے، میں نے تم سے سوال کیا: کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے؟تو تم نے کہا کہ: نہیں، رسول وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے سوال کیا: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ تو تم نے کہا کہ: وہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ: تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور تمہیں بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے، تمہیں نماز، سچائی، پاکدامنی کا حکم دیتا ہے۔ اگر جو تم نے کہا ہے سچ ہے تو عنقریب وہ میرے قدموں کے نیچے والی جگہ( تخت) کا مالک ہوگا۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ وہ آنے والا ہے لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ جاؤں گا تو میں اس کی ملاقات کی کوشش و جستجو کرتا۔ اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو میں اس کے قدم دھوتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا جسے دحیہ کلبی‌رضی اللہ عنہ نے والیٔ بصریٰ کی طرف بھیجا تھا۔ اس نے وہ خط ہر قل کے حوالے کیا، ہر قل نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم،محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے، ہر قل شاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی، اما بعد !میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دو گنا اجر دے گا، اگر تم نے منہ موڑ لیا تو تم پر رعایہ کا گناہ بھی ہوگا،﴿آل عمران:۶۴﴾ ”اے اہل کتاب ایسے کلمے کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابرہے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہو کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں“۔ ابو سفیان نے کہا: جب اس نے یہ بات کہی اور خط سے فارغ ہوا تو اس کے پاس شور ہونے لگا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا، جب ہم باہر آگئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ۔بنو اصفر کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے، مجھے اس وقت یقین ہوگیا کہ وہ غالب ہو کر رہے گا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام میں داخل کر دیا۔ ابن ناظور- والیٔ ایلیا- اور ہر قل کا مصاحب شام کے عیسائیوں کا پادری بیان کرتا ہے کہ: ہر قل جب ایلیا پہنچا تو ایک صبح بوجھل طبیعت کے ساتھ اٹھا، اس کے درباریوں نے کہا: ہمیں آپ کی طبیعت ناساز لگتی ہے۔ ابن ناظور نے کہا: ہر قل ایک ماہر علم نجوم تھا، جب لوگوں نے اس سے سوال کیا تو اس نے کہا: آج رات میں نے ستاروں کی چال دیکھی تو میں نے دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ غالب ہو گیا ہے، اس امت میں کون ختنہ کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہودیوں کے علاوہ تو کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ آپ کو ان کے ماملہ میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ملک کے بڑے شہروں کے حکام کو لکھ لکھئے کہ جو یہودی وہاں ہیں انہیں قتل کر دیں، ابھی وہ اسی کشمکش میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اطلاع دے رہا تھا۔ جب ہرقل نے اس سے پوچھا تو ہر قل نے کہا: اسے لے جاؤ اور دیکھو کہ کیا اس کا ختنہ ہو چکا ہے یا نہیں؟ اس کے سپاہیوں نے اسے دیکھا تو آکر بتایا کہ اس کا ختنہ ہو چکا ہے۔ ہر قل نے اس سے عرب کے لوگوں کے بارے میں پوچھا۔ تو اس نے کہا: وہ لوگ ختنہ کرتے ہیں۔ ہر قل نے کہا: یہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )اس امت کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو چکا ہے۔ پھر ہر قل نے اپنے ایک دوست جو رومیہ میں تھا کی طرف لکھا وہ بھی علم نجوم میں ہر قل جیسا تھا اور ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔ ابھی ہر قل حمص نہیں پہنچا تھا کہ اس کے پاس اس کے دوست کا خط آیا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ہر قل کی رائے کی موافقت کی گئی تھی۔ ہر قل نے حمص میں ایک بڑے ہال میں روم کے سرداروں کو بلایا، دروازے بند کرنے کا حکم دیا، پھر سامنے آکر کہنے لگا: اے روم کے لوگو! کیا تم بھلائی اور کامیابی چاہتے ہو اور یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بادشاہت قائم ر ہے؟تو تم اس نبی کی پیروی کر لو۔ وہ جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، تو دیکھا کہ دروازے بند کئے جا چکے ہیں۔ جب ہر قل ان کی اس درجہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا: انہیں میری طرف واپس لاؤ اور کہنے لگا: ابھی میں نے یہ بات تمہارے امتحان کے لئے کہی تھی تاکہ میں تمہارے دین کی شدت کا اندازہ لگا سکوں۔ وہ میں نے دیکھ لی۔ وہ سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہوگئے۔ یہ ہر قل کا آخر ی معاملہ تھا۔

Hadith in English

.

Previous

No.2171 to 3704

Next
  • Book Name Al-Silsila-tus-Sahiha
  • Takhreej الصحيحة رقم (3607) صحيح البخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ رقم (6)