سلطان محمد شہاب الدین غوری

Sultan Shahabuddin Gauri

سلطان محمد شہاب الدین غوری

شہاب الدین سلطنت غوریہ کا دوسرا اور آخری حکمران تھا جو 1202ء سے 1206ء تک سلطنت غوریہ کا حکمران رہا۔سیف الدین ثانی کے انتقال کے بعد غیاث الدین غوری سلطنت غوریہ کے تخت پر بیٹھا اور اس نے 567ھ بمطابق 1173ھ میں غزنی کو مستقل طور پر فتح کرکے شہاب الدین محمد غوری کو سلطان معز الدین کا خطاب دے کر غزنی میں تخت پر بٹھایا۔ غیاث الدین نے اس دوران ہرات اور بلخ بھی فتح کرلئے اور ہرات کو اپنا دارالحکومت بنایا۔

سلطان شہاب الدین غوری اگرچہ اپنے بھائی کا نائب تھا لیکن اس نے غزنی میں ایک آزاد حکمران کی حیثیت سے حکومت کی اور پاکستان اور شمالی ہندوستان کوفتح کرکے تاریخ میں مستقل مقام پیدا کرلیا۔ 598ھ میں اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ پوری غوری سلطنت کا حکمران بن گیا۔

 

فتوحات
شہاب الدین محمد غوری کی فوجی کارروائیاں موجودہ پاکستان کے علاقے سے شروع ہوئیں اور وہ مشہور عالم درہ خیبر کے بجائے درہ گومل سے پاکستان میں داخل ہوا۔ اس نے سب سے پہلے ملتان اور اوچ پر حملے کئے جو غزنویوں کے زوال کے بعد ایک بار پھر اسماعیلی فرقے کا گڑھ بن گئے تھے ۔ یہ اسماعیلی ایک طرف مصر کے فاطمی خلفاء کے ساتھ اور دوسری طرف ہندوستان کے ہندوؤں سے قریبی تعلق قائم کئے ہوئے تھے۔ غور کے حکمران عام مسلمانوں کی طرح عباسی خلافت کو تسلیم کرتے تھے اور اسماعیلیوں کی سرگرمیوں کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے ۔ سلطان محمد غوری نے 571ھ بمطابق 1175ء میں ملتان اور اوچ دونوں فتح کرلئے اس کے بعد 575ھ بمطابق 1179ء میں محمد غوری نے پشاور اور 576ھ بمطابق 1182ء میں دیبل کو فتح کرکے غوری سلطنت کی حدود کو بحیرہ عرب کے ساحل تک بڑھادیں۔ لاہور اس کے نواح کا علاقہ ابھی تک غزنوی خاندان کے قبضے میں تھا جن کی حکومت غزنی پر جہانسوز کے حملے کے بعد لاہور منتقل ہوگئی تھی۔ شہاب الدین محمد غوری نے 582ھ بمطابق 1186ء میں لاہور پر قبضہ کرکے غزنوی خاندان کی حکومت کو بالکل ختم کردی۔

 

پرتھوی راج سے جنگ
لاہور اور پاکستان کو فتح کرنے کے بعد شہاب الدین نے بھٹنڈہ کو فتح کیا جو پہلے غزنوی سلطنت میں شامل تھا لیکن اس وقت دہلی اور اجمیر کے ہندو راجہ پرتھوی راج کے قبضے میں تھا۔ پرتھوی راج نے جب یہ سنا کہ شہاب الدین نے بھٹنڈہ فتح کرلیا ہے تو وہ ایک زبردست فوج لے کر جس کی تعداد دو لاکھ تھی مسلمانوں سے لڑنے کے لئے نکلا۔ دہلی کے شمال مغرب میں کرنال کے قریب تلاوڑی کے میدان میں دونوں افواج میں خوب لڑائی ہوئی لیکن شہاب الدین کی فوج تھوڑی تھی، اس کو شکست ہوئی اور وہ بری طرح زخمی ہوگیا۔ اسی حالت میں ایک سپاہی اس کو بچا کر لے گیا۔ شہاب الدین کو اس شکست کا اتنا رنج ہوا کہ ایک سال تک اس نے عیش و آرام کی زندگی نہیں گذاری۔ اس کے بعد ایک بڑی فوج جس کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی لے کر پچھلی شکست کا بدلہ لینے کے لئے دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر سے پرتھوی راج بھی بھارت کے ڈھائی سو راجاؤں کی مدد سے تقریبا 5 لاکھ فوج لے کر روانہ ہوا۔ اس مرتبہ بھی مقابلہ تلاوڑی کے میدان میں ہی ہوا لیکن شہاب الدین غوری کو فتح ہوئی اور ہندوؤ ں کو شکست ہوئی۔اور پرتھوی راج لڑائی میں مارا گیا۔

شمالی ہند و بنگال کی فتح
پرتھوی راج کو شکست دینے کے بعد شہاب الدین نے دہلی اور اجمیر بھی فتح کرلیا اور اس کے سپہ سالار ملک محمد ابن بختیار خلجی نے آگے بڑھ کر بہار اور بنگال کو زیر نگین کیا۔ اس طرح پورا شمالی ہندوستان اور موجودہ پاکستان مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔

ہندوستان اور بنگال میں مسلم اقتدار کے بانی اور ایک بیدار مغز حکمران کی حیثیت سے شہاب الدین کا پایہ بہت بلند ہے ۔ اس کی فتوحات محمود غزنوی کی لشکر کشی کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔ وہ محمود کی طرح کسی علاقے کو فتح کرکے واپس نہیں جاتا تھا بلکہ اس کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیتا تھا۔ اس نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی مستقل حکومت قائم کردی اور اس طرح وہ کام مکمل کردیا جو 500 سال قبل محمد بن قاسم نے شروع کیا تھا۔

 

کھوکھروں کا قبول اسلام
شہاب الدین کے زمانے میں غیر مسلموں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان کھوکھر نامی ایک قوم آباد تھی جن کے یہاں ایک مسلمان قید تھا۔ یہ مسلمان ان لوگوں کو اسلام کی خوبیاں بیان کرتا رہتا تھا جسے وہ لوگ بڑی دلچسپی سے سنتے تھے ۔ ایک دن ان کے سردار نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہوجاؤں تو تمہارا بادشاہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ مسلمان قیدی نے جواب دیا کہ اگر تو مسلمان ہوجائو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ بادشاہ تمہارے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرے گا۔ کھوکھروں کے سردار نے جب یہ بات سنی تو اسلام لے آیا۔ مسلمان نے ایک خط کے ذریعے اپنی گفتگو کی اطلاع سلطان شہاب الدین کو دی۔ شہاب الدین نے اس کے جواب میں سردار کو انعام و اکرام سے نوازا اور علاقے کی جاگیر بھی اسی کو دے دی۔

اس کے بعد اس کی قوم نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کھوکھر بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے جن میں ایک ”دختر کشی“ بھی تھی۔ یہ لوگ عہد جاہلیت کے عربوں کی طرح لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے ۔ اسلام لانے کے بعد یہ بری رسم بھی ختم ہوگئی۔ پاکستان میں بلوچستان کے پہاڑی علاقوں کے پٹھان بھی اسی زمانے میں اسلام لائے ۔

 

شہادت
یہ وہ زمانہ تھا جب سلجوقیوں کے بعد خراسان اور ترکستان میں خوارزم شاہی خاندان کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ غوریوں کی اس خاندان سے مسلسل لڑائیاں رہتی تھیں۔ غیاث الدین کے بعد شہاب الدین کے زمانے میں یہی لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں کے سلسلے میں شہاب الدین 601ھ میں خوارزم تک پہنچ گیا لیکن وہاں اس کو شکست ہوئی اور یہ مشہور ہوگیا کہ محمد غوری جنگ میں کام آگیا۔ اس خبر کے پھیلنے پر پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کردی۔ محمد غوری فوراً پنجاب آیا اور بغاوت فرو کی لیکن بغاوت فرو کرنے کے بعد جب وہ واپس جارہا تھا تو دریائے جہلم کے کنارے ایک اسماعیلی فدائی نے حملہ کرکے اسے شہید کردیا۔ شہاب الدین محمد غوری کی شہادت کے ساتھ غوری خاندان کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔

Sohaib Aslam ج