غزوہ احد اور رسول پاک ﷺ کی جنگی حکمت عملی
Ghazva-e-Ahad
محاذ جنگ میں ہمیشہ سے ایسا ھی ھوتا آیا ھے کہ جب بھی دو فریقین مین سے کسی ایک نے میدان جنگ میں پہلے آ کر جگہ بنا لی تو دوسرے فریق کو کبھی بھی اپنی مرضی و منشا کی جگہ نھیں مل سکتی۔
لیکن میدانِ اُحد میں ایسا نہیں ہوا احد کے میدان میں مشرکین مکہ نے پہلے پہنچ کراپنے لئے موزوں اور بہتر جگہ کا انتخاب کر لیا جبکہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ اگر چہ بعد میں پہنچے لیکن انہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی و بصیرت سے میدان جنگ کا بھرپور جائزہ لیا اور پورا میدان اپنے موافق بنا لیا۔۔۔
۔ذیل میں اُن چند تدابیر کا ذکر ھے جو آپ ﷺ نے میدان احد میں اپنائیں۔
میدان اُحد میں پہنچنے سے پہلے اطلاع ملی کہ دشمن جبلِ اُحد کے دامن میں کئی سمت سے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ۔ آپ ﷺ ایک صحابی کی راہنمائی میں مشرقی سمت سے بنو حارثہ کے حرہ (کالے پتھروں کا علاقہ) اور کھیتوں سے گزرتے ہوئے دشمن کو مغرب کی سمت میں چھوڑتے ہوئے جبل اُحد کی گھاٹی میں جا پہنچے۔
آپﷺ اپنے مجاہدین کوصبح صادق کے اندھیرے میں دشمن کی نظروں سے بچا کرلے آئے اور اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ دشمن کو مسلمانوں کی عددی قوت اور آنے کے اوقات کا بالکل اندازہ نہ ہوسکا۔
میدان میں صف بندی یوں فرمائی کہ لشکر کی پشت جبلِ اُحد کے مضبوط پہاڑ کے ذریعے محفوظ ہوگئی ۔ میمنہ (دایاں حصہ) جبلِ اُحد کی چٹانوں کے دامن میں آ کر محفوظ ہو گیا۔ میسرہ (بایاں حصہ ) جبل رُماۃ والی سمت میں تھا اِس سمت کی تنگ گھاٹی کو تیر اندازوں نے سنبھال لیا۔
آپ ﷺ نے دشمن کو سامنے کی طرف سے آنے پر مجبور کیا۔ اب دشمن کی پشت مدینہ منورہ کی طرف ہو گئی۔ ظاہری نظر میں تو آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کو کھلا چھوڑ دیا تا ہم پشت مدینہ منورہ ہونے کی وجہ سے دشمن کو ہر لحظہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں مسلمان شہر کی جانب سے آ کر حملہ نہ کردیں۔
لشکر کے پڑاؤ کے لئے اُونچی جگہ منتخب فرمائی کہ اگر خدانخواستہ شکست سے دو چار ہونا پڑے تو بھاگنے اور تعاقب کنندگان کی قید میں جانے کے بجائے کیمپ میں پناہ لی جا سکے اور اگر دشمن کیمپ پر قبضہ کے لئے پیش قدمی کرے تو اُسے نہایت سنگین نقصان سے دو چار ہونا پڑے۔
اس کے برعکس آپ نے دشمن کو اپنے کیمپ کے لئے ایک ایسا نشیبی مقام قبول کرنے پر مجبور کردیا کہ اگر وہ غالب آ جائے تو فتح کا کوئی خاص فائدہ نہ اُٹھا سکے اور اگر مسلمان غالب آجائیں تو تعاقب کرنے والوں کی گرفت سے (دشمن) بچ نہ سکے۔
افراتفری کے عالم میں آپﷺ نے پیچھے جبلِ اُحد میں اپنے اُسی ممکنہ کیمپ میں جاکر لڑائی کی کمان سنبھالی ۔ یہ جگہ اپنی اونچائی اور سنگلاخ ہونے کی وجہ سے نا قابل تسخیر تھی۔ اس سے کئی فائدے حاصل ہوئے۔
وہ جو افواہ پھیلی تھی کہ رسولﷺ کی شہادت ہوچکی ہے اوراس کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات مرجھا گئے تھے۔ اب جب آپﷺ کو اصحابؓ نے خیریت وعافیت سے دیکھا تو اُن کے حوصلے تروتازہ ہوگئے اور پھر سے نئے جذبے کے ساتھ لڑائی میں کود پڑے۔
اس پہاڑی درّہ میں مشرق ، مغرب اور شمال تینوں اطراف سے جبلِ اُحد نے مسلمانوں کو محفوظ پناہ گاہ دی۔
یہاں مورچہ محفوظ تھا، دشمن پر تیروں اورپتھروں سے حملہ کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ دشمن کے دستوں نے کئی مرتبہ یہاں پہنچنے کی کوشش کی مگر مسلمانوں کے تیروں نے اُن کو مار بھگایا۔
اس بہترین جنگی حکمت عملی کیوجہ سے اللہ پاک نے مسلمانوں کو احد کے میدان میں فتح نصیب فرمائی اور مسلمانوں کے حوصلے مزید بلند ھوئے۔

