دیانت کیا ہے
Diyaanat kia ha
حکیم سعید کے قلم سے
دیانت
ہرانسان ایک ایسے معاشرے کی تمنا کرتا ہے جس میں امن و امان ہو، محبت، سکوں انسانی لگاؤ، ہمدردی اور یگانگت کی فضا ہو ۔ ہرانسان چاہتا ہے کہ تمام انسان امن وسکون کی زندگی بسر کریں کسی سے کسی کو شکایت نہ ہو۔ انسانی معاشرے کا جو بہترین تصور قائم کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص کے دل میں اپناۓ جنس کی بچی محبت ہو ، وہ آپس میں شیر و شکر ہوکر رہیں ، ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر رہیں ، بھائی بن کر رہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس نیک اور پاک تمنا کو حاصل کرنے کے لئے کون سی چیز ضروری ہے اور وہ کون سا عنصر ہے جس کے فقدان کی وجہ سے یہ مطلوبہ ماحول پیدا نہیں ہو رہا۔ جس کی تمنا میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کئی اہم عنصر کی نشان دہی کی جا سکتی ہے لیکن ان تمام عوامل کا تجزیہ کیا جاۓ تو بنیادی عنصر’ دیانت‘ ہی ثابت ہوگا ۔ ہمیں باور کرنا چاہئے اور یقین کہ یہ فرشتوں کا ماحول انسانی بستی میں اس وقت قائم ہو سکتا ہے کہ جب دیانت کی مال داری ہو اور معاشرے کا ہر فرد دیانت کے وصف کی سختی سے پابندی کرتا ہو۔ آپس کے لین دین کے معاملوں میں دیانت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر خاص و عام معاملات میں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی اتنا ہی اہتمام کرے جتنا وہ اپنے حقوق کے حاصل کرنے کی تمنا یا جدوجہد کرتا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر تمام انسان دوسروں کے حقوق پورے اہتمام کے ساتھ ادا کریں ، یعنی جس کا جس کسی پر جتنا حق پہنچتا ہو اسے پوری امانت اور پوری دیانت کے ساتھ رتی رتی ادا کر دیں تو ہم اسے دیانت کہتے ہیں ۔
عربی زبان میں اسی معنی میں امانت کا لفظ بھی ادا ہوتا ہے ۔ انسان کے تعلقات دو گونہ ہیں ۔ایک اپنے خالق کے ساتھ اور دوسرے ابناۓ جنس کے ساتھ ۔ اس میں شک نہیں کہ تیسرے نمبر پر کائنات کی تمام دوسری مخلوقات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام چونکہ کامل اور ابد تک کے لئے ایک نا قابل تبدیل ضابطہ حیات ہے ، اس لئے اسلام میں ہر وہ چیز اور ہر وہ عنوان موجود کہ جو قابل غور و فکر ہو سکتا ہے اور جس کا تصور کیا جاسکتا ہے مگر جہاں تک دیانت کے وصف اور اس کے اثرات کا تعلق ہے اس کا زیادہ اہتمام خالق ارض و سما اور ابناۓ جنس کے ساتھ تعلقات ہی پر میں سے ہیں کہ میرے سر پر کائنات و تمام دوسری وفات وی مار لیا جا سا ہے ۔ اسلام چونکہ کال اور مکمل اور ابد تک کے لئے ایک نا قابل تبدیل ضابطہ حیات ہے اس لئے اسلام میں ہر وہ چیز اور ہر وہ عنوان موجود ہے جو قابل غور و فکر ہو سکتا ہے اور جس کا تصور کیا جا سکتا ہے، مگر جہاں تک دیانت کے وصف اور اس کے اثرات کا تعلق ہے اس کا زیادہ اہتمام خالق ارض وسما اور ابناۓ جنس کے ساتھ تعلقات ہی پر مبنی ہے۔ اللہ تعالی کے ساتھ دیانت کا مطلب یہ ہے کہ پورے اخلاص اور جاں فشانی کے ساتھ اس کی شریعت پر چلنے اور اسے نافذ کرنے کا اہتمام کیا جاۓ۔ سورۃ احزاب میں اللہ تعالی نے بطور خاص شریعت الہی کوامانت سے تعبیر کیا ہے جو انسانوں کے سپرد کی گئی ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے: ہم نے (خلافت ارض کی اس امانت کو آسانوں ، زمین اور پہاڑوں کے آگے رکھا تو ان میں سے کوئی اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ ہوا اور یہ سب اس سے ڈرے، مگر انسان نے یہ بوجھ اٹھا لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دیانت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔
رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ تمام اچھے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ جو لوگ بھی نیک اوصاف کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں انہیں سواۓ رسول اللہﷺ کے کوئی دوسرا نمونہ اس دنیا میں نظر نہیں آ سکتا۔ اس کے علاوہ اگر کچھ ہے تو وہ نامکمل ہے اور نا قابل اعتبار۔ یہاں اخلاق کا ہر وصف مکمل ، مفصل اور حد سے زیادہ قابل اعتماد ہے ۔ آں حضرتﷺ کے بنیادی اوصاف میں دیانت کا وصف ابتداء ہی سے نمایاں رہا۔ چنانچہ جب آپﷺ منصب نبوت پر فائز ہوۓ تو آپﷺ نے بار باراس وصف کا حوالہ دے کر مخاطبین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔ اکثر پیغمبروں کی صفت میں بھی یہ لفظ قرآن میں آیا ہے کہ انہوں نے اپنی اپنی امت سے یہ کہا کہ میں تمہارے لئے امانت دار قاصد ہوں ۔ اني الكم رسول امين
جو پیغام مجھے اللہ سے ملا ہے وہ دیانت وامانت کے ساتھ نہیں پہنچا رہا ہوں ۔“ آں حضرتﷺ میں یہ وصف اس حد تک نمایاں تھا کہ نبوت سے پہلے بھی مکہ والے آپ ﷺ کو امین یعنی دیانت دار کہتے تھے۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ حضورﷺ نے ایک شخص سے کچھ کھجور میں قرض لیں ۔ چند روز بعد وہ مخص تقاضے کو آیا۔ آپﷺ نے ایک انصاری صحابی کو حکم دیا کہ وہ اس کا قرض ادا کر دیں ۔انہوں نے تعمیل محکم کی لیکن کچھ کھجور وہی عمدہ نہ تھیں جیسی اس نے دی تھیں ۔ اس شخص نے لینے سے انکار کر دیا۔ انصاری نے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کی عطا کر دو کھجور میں لینے سے انکار کرتے ہو! وہ مختص بولا ، ہاں ، رسول اللہﷺ عدل نہ کریں گے تو اور کون کرے گا۔
حضورﷺ نے یہ مکالمہ سنا تو آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ۔ اپنے خالق و مالک اور اپنے رب کے ساتھ دیانت داری کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی شریعت پر عمل کریں اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کریں ۔ اس طرح اپنے ابناۓ جنس یعنی دوسرے انسانوں کے ساتھ دیانت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں انہیں بے کم و کاست پورے کرنے کی کوشش کر ہیں ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت داروں تک ان کی امانتیں پہنچادیا کرو۔ ( النسا:58) ہم پر سب سے بڑا فرض ماں باپ کی خدمت ہے۔ ہرانسان پر واجب ہے کہ وہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے۔ یہی دیانت کا تقاضا ہے۔ اسی طرح رشتے داروں کے حقوق ہیں ۔ مسلمانوں کے حقوق ہیں ۔ عام انسانوں کے حقوق ہیں۔ اچھے اور دیانت دار انسان اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام حقوق پوری امانت داری کے ساتھ ادا کریں۔ کسی نے کوئی چیز امانت رکھوائی ہے تو اسے اسی طرح واپس کیا جائے ۔ ماتحتوں کے جو حقوق ہیں انہیں پورا پورا ادا کیا جاۓ۔ ملازمت کی شرائط کے مطابق اپنا فرض ادا کیا جاۓ ۔ تجارت میں خریدوفروخت کے جو اسلامی آداب میں انہیں ملحوظ خاطررکھا جاۓ ۔ اگر قوم اپنا قائد چنے تو اسے چاہئے کہ وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے یہ تمام باتیں دیانت کے تقاضوں میں شامل ہیں۔
اگر غور کیا جاۓ تو انسانی معاشرے میں جو بھی افراتفری نظر آتی ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ معاشرے کے وہ افراد جن کے کردار کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے وہ دیانت کے اصول پر پوری طرح کار بند نہیں ہیں ۔ ہم میں سے ہرشخص کا فرض ہے کہ دیانت کو اپنائیں اور معاملات میں اسے سنگ بنیاد بنا لیں۔ اگر ایسا ہوا تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاۓ گا اورمملکت خدا داد پاکستان جنت بن جاۓ گی۔

