رسول ﷺ کا دشمنوں کے حق میں دعائے خیر
Dua-e-Kher
دشمنوں کے حق میں دعائے خیر
دشمنوں کے حق میں بد دعا کرنا انسان کی فطری عادت ہے لیکن پیغمبروں کا مرتبہ عام انسانی سطح سے بدرجہا بلند ہوتا ہے، جو لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں وہ ان کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اور جو ان کے تشنہٴ خون ہوتے ہیں وہ ان کو پیار کرتے ہیں، ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمانوں پر او رخود آنحضرتﷺپر جو پیہم مظالم ہورہے تھے، اس داستان کے دہرانے کے لیے بھی سنگدلی درکار ہے، اسی زمانہ میں خباب بن ارت ؓ ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللهﷺدشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائیے، یہ سن کر چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔
ایک دفعہ چند صاحبوں نے مل کر اسی قسم کی بات کہی تو آپﷺنےفرمایا ”میں دنیا کے لیے لعنت نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
آپ ﷺ کو محصور کرنے والے قریشیوں کے لئے بھی دعا کرنا
وہ قریش جنہوں نے تین برس تک آپﷺ کو محصور رکھا اور جو آپﷺ کے پاس غلہ کے ایک دانہ کے پہنچنے کے روادار نہ تھے، ان کی شرارتوں کی پاداش میں دعائے نبویﷺ کی استجابت نے ابر رحمت کا سایہ ان کے سرسے اٹھا لیا اور مکہ میں اس قد رقحط پڑا کہ لوگ ہڈی اور مردار کھانے لگے۔ ابو سفیان نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ”محمدﷺ تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے، خدا سے دعا کرو کہ یہ مصیبت دور ہو۔“ آپ ﷺ نے بلا عذر فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور خدا نے اس مصیبت سے ان کو نجات دی۔
جنگ احد میں خون آلود کرنے والوں کے لئے دعا کرنا
جنگ احد میں دشمنوں نے آپﷺ پر پتھر پھینکے، تیر برسائے، تلواریں چلائیں، دندانِ مبارک کو شہید کیا، جبین اقدس کو خون آلود کیا، لیکن ان حملوں کا وار آپ ﷺنے جس سپر پر روکا وہ صرف یہ دعا تھی:
اللہم اہد قومی فانہم لایعلمون ”خدایا ان کو معاف کرنا کہ یہ نادان ہیں
طائف والوں کے استہزاء اور تمسخر کے جواب میں دعائیں
وہ طائف جس نے دعوت اسلام کا جواب استہزاء اورتمسخر سے دیا تھا، وہ طائف کا معاشرہ جس نے داعی اسلام کو اپنی پناہ میں لینے سے انکار کردیا تھا، وہ طائف جس نے پائے مبارک کو لہو لہان کیا تھا ان کی نسبت فرشتہ غیب پوچھتا ہے کہ حکم ہو توان پر پہاڑ الٹ دیا جائے۔ جواب ملتا ہے کہ ”شاید ان کی نسل سے کوئی خدا کا پرستار پیدا ہو۔‘‘
دس بارہ برس کے بعد یہی طائف اسلام کی دعوت کا جواب تیر و تفنگ (منجنیق) سے دیتا ہے، جان نثاروں کی لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں، صحابہ عرض کرتے ہیں کہ ”یا رسول الله ﷺ ان کے حق میں بد دعا کیجئے “آپ ﷺ دعا کے لے ہاتھ اٹھاتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ حضورﷺ ان کے حق میں بد دعا فرمائیں گے۔ لیکن زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہیں۔’’خداوند اہل طائف کو اسلام نصیب کر۔
رحمت عالم ﷺکا قبیلہ دوس کے لئے دعاکرنا
دوس کا قبیلہ یمن میں رہتا تھا طفیل رضی الله عنہ بن عمرو دوسی اس قبیلہ کے رئیس تھے، وہ قدیم الاسلام تھے، مدت تک وہ اپنے قبیلہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن وہ اپنے کفر پر اڑا رہا، ناچار وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور قبیلے کی حالت عرض کرکے گزارش کی کہ ان کے حق میں بد دعا فرمائیے، لوگوں نے یہ سنا تو کہا کہ اب دوس کی بربادی میں کوئی شک نہیں رہا، لیکن رحمت عالمﷺ نے جن الفاظ میں دعا فرمائی وہ یہ تھے
اللہم اہد دوسا وأت بہم ”خداوندا دوس کو ہدایت کر اور ان کولا
حضرت ابو ہریرہؓ کی مشرکہ ماں کے لئے دعا
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ماں مشرکہ تھیں، اپنی ماں کو وہ جس قدر اسلام کی تبلیغ کرتے تھے وہ اس کی مخالفت کرتی تھیں، ایک دن انہوں نے اسلام کی دعوت دی تو ان کی ماں نے آنحضرتﷺکی شان میں گستاخی کی، حضرت ابو ہریرہؓ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ رونے لگے اور اسی حالت میں آنحضرتﷺکے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا، آپﷺنے دعا کی ”الہٰی! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت نصیب کر۔‘‘ وہ خوش خوش گھر واپس آئے تو دیکھا کواڑ بند ہیں اور ماں نہا رہی ہیں،غسل سے فارغ ہوکر کواڑ کھولے اور کلمہ پڑھا۔
رحمة للعالمین ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشوں اور اعلانیہ استخفاف و اہانت کرنے والے کیلئے دعا کرنا
عبدالله بن ابی بن سلول وہ شخص تھا جو عمر بھر منافق رہا اور کوئی موقع اس نے آنحضرت ﷺاور مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشوں اور اعلانیہ استخفاف و اہانت کا ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کفار قریش کے ساتھ اس کی خفیہ خط و کتابت تھی، غزوہ احد میں عین موقع پر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فوج سے الگ ہوگیا۔ واقعہ افک میں حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگانے والوں میں وہ سب سے آگے تھا۔بایں ہمہ اس کی فرد جرم کو رحمت عالمﷺکا حکم و عفو ہمیشہ دھوتا رہا، وہ مرا تو آپﷺنے اس کی مغفرت کی نماز پڑھی، اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا ”یا رسول الله ! آپﷺاس کے جنازہ کی نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اس نے یہ کہا اور یہ کہا ۔‘‘یہ سن کر آپ ﷺ متبسم ہوئے اور فرمایا ”ہٹو اے عمر!“جب زیادہ اصرار کیا تو فرمایا ”اگر مجھے اختیار دیا جاتا کہ اگر ستر دفعہ میں نماز پڑھوں کہ اس کی بخشش ہو سکتی ہے تو اس سے بھی زیادہ پڑھتا

