رسول ﷺ کے غیر مسلموں کے نام خطوط گرامی۔
Khatoot
مکتوبِ گرامی ﷺ بنام نجاشی شاہِ حبش
رسول اللهﷺ نے عمرو بن امیہ ضمری ؓ کے ہاتھ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے بار ے میں شاہ حبشہ کو یہ گرامی نامہ ارسال فرمایا:’’بسم الله الرحمن الرحیم،محمد رسول الله ﷺکی جانب سے نجاشی شاہ حبش کے نام۔
السلام علیک میں اس الله پاک کی حمد تمہاری طرف پیش کرتا ہوں جو مالک کائنات اورمقدس امن دینے والا اور سلامت رہنے والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ ؑ الله کی طرف سے روح اور الله کا ایسا کلمہ ہیں جن کو مریم بتول نیک طینت، پاک دامن کی طرف القا فرمایا تھا، چنانچہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ حاملہ ہوگئیں، ان کو الله نے اپنی روح اور (اپنے فرشتہ کی پھونک سے پیدا فرمایا جس طرح پر کہ حضرت آدم ؑ کی تخلیق اور ان میں روح کا پھونکنا اپنے دست قدرت سے کیا اور میں تم کو ایسے الله کی طرف بلاتا ہوں جو تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی اطاعت وفرماں برداری کی پابندی کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی کہ میرا اتباع کرو۔ مجھ پر اور جو کتاب مجھ پر نازل کی گئی اس پر ایمان لے آوٴ بیشک میں الله کا رسول ہوں اور میں نے تمہارے پاس اپنے چچازاد بھائی جعفر اور ان کی معیت میں دوسرے مسلمانوں کو بھیجا ہے جب یہ لوگ تمہارے پاس پہنچیں تو ان کی خاطر تواضع کرنا اور تکبر اور غرور کو چھوڑ دینا، میں تم کو اور تمہارے لشکر کو الله عزوجل کی طرف بلاتا ہوں میں تمہیں تبلیغ و نصیحت کرچکا میری نصیحت کو مان لو اور اس پر سلامتی ہے جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔
مکتوبِ گرامی ﷺبنام قیصر و شاہ روم
حضرت دحیہ کلبی ؓفرماتے ہیں جناب رسول اللهﷺنے مجھے گرامی نامہ دے کر قیصر کی طرف بھیجا میں نے قیصر کے یہاں پہنچ کر مکتوب گرامی اس کے حوالہ کیا قیصر کے پاس اس کا بھتیجا بیٹھا ہوا تھا، اس کا رنگ سرخ، آنکھیں نیلی، سر منڈا ہوا تھا، خط قیصر کے سامنے پڑھا گیا، جس کا مضمون گرامی یہ ہے:الله کے رسول محمد ﷺکی طرف سے روم والے ہر قل کے نام
یہ سن کر اس کا بھتیجا غرآیا اور تڑخ کر بولا یہ خط ہر گز نہ پڑھا جائے گا، قیصر (یعنی ہر قل) نے اس سے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا اس لیے کہ کہنے والے نے اپنا نام پہلے لکھا ہے اور دوسرے یہ کہ روم کا بادشاہ لکھنے کے بجائے روم والا لکھا ہے۔ قیصر نے کہا یہ مکتوب گرامی ضرور پڑھا جائے گا، چنانچہ یہ خط پڑھا گیا اور جب قیصر کے پاس سے مجمع ہٹ گیا قیصر نے مجھے اور اپنے اس پادری کو جوہر کام میں مشیر سمجھا جاتا تھا اندر بلالیا ساری باتیں اس کے سامنے بیان کیں اور آپ کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا پادری نے کہا یہی تو وہ نبی ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے تھے اور جن کی ہم کو عیسیٰ ؑ نے بشارت دی ہے، قیصر نے پھر پادری سے پوچھا میرے لیے اب تمہارا کیا حکم ہے پادری نے اس سے کہا بہر حال میں تو ان کی تصدیق کروں گا، اور ان کا اتباع کروں گا، قیصر نے کہا اگر میں ایسا کر لوں تو میری سلطنت چلی جائے گی۔
حضرت دحیہؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ تو اس کے پاس سے چلے آئے اور قیصر نے ابو سفیان کے پاس جو ان دنوں وہیں تھے آدمی بھیج کر ان کو بلوایا اور ان سے دریافت کیا وہ آدمی جو تمہارے یہاں ظاہر ہوا ہے کون ہے؟ کیسا ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ جوان آدمی ہے قیصر نے پوچھا کہ تم لوگوں میں اس کا حسب نسب کیسا ہے؟ ابو سفیان نے کہا حسب نسب میں اس سے افضل ہم میں سے کوئی نہیں ہے، قیصر نے کہا یہ بات علاماتِ نبوت میں سے ہے، اس کے بعد پوچھا کہ آپ کی سچائی کس درجہ ہے ابو سفیان نے کہا کہ کبھی جھوٹ نہیں بولا قیصر نے کہا یہ بھی علامت نبوت سے ہے، قیصر نے پوچھا کیا کوئی تمہارے ساتھیوں میں سے اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد تمہاری طرف لوٹا ابو سفیان نے کہا نہیں قیصر نے کہا یہ بھی نبوت کی نشانی ہے، قیصر نے دریافت کیا جب وہ اور اس کے ساتھی جنگ کرتے ہیں تو کیا پسپا بھی ہوتے ہیں ابو سفیان نے کہا کبھی انہیں شکست ہوتی ہے کبھی فتح ہوتی ہے قیصر نے کہا یہ بھی نبوت کی نشانی ہے۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر قل نے آپ کی گرامی نامہ پڑھ کر حضرت دحیہ ؓ سے کہا تجھ پر بڑا افسوس ہے بے شک خدا کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے حضرت بنی مرسل ہیں اور یہ وہی ذات گرامی ہیں جن کا ہم لوگ انتظار کر رہے تھے، اور ان کا تذکرہ ہماری کتابوں میں موجود ہے لیکن مجھے باشندگان روم سے اپنی جان کا خطرہ ہے اور اگر یہ کھٹکا نہ ہوتا تو میں ضرور آپ کا اتباع کرتا تم صنغاطر پادری کے پاس جاوٴ اور اس سے اپنے حضرت کا تذکرہ کرو، اس لیے کہ وہ سر زمین روم میں مجھ سے بڑا ہے او راس کی بات زیادہ مانی جاتی ہے حضرت دحیہؓنے پادری سے جاکر بات چیت کی، پادری نے کہا تمہارے حضرت خدا کی قسم نبی مرسل ہیں ہم ان کی صفات سے اور ان کے نام سے بھی واقف ہیں اس کے بعد وہ اپنے حجرے میں گیا اور اپنے کپڑے اتارے اور سفید کپڑے پہن کر باہر آیا اور اس نے کلمہ حق کی شہادت دی اہل روم اس پر پل پڑے اور اس کو شہید کر ڈالا۔
مکتوبِ گرامیﷺ بنام مقوقس شاہ اسکندریہ (مصر)
حضرت عبدالله بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں رسول اللهﷺ نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہ کو اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کے پاس نامہ گرامی دے کر بھیجا یہ حضور کا خط لے کر پہنچے مقوقس نے گرامی نامہ کو چوما اور حضرت حاطب ؓ کا اکرام کیا اور بہت اچھی طرح ان کو ٹھہرایا اور جب انہیں رسول اللهﷺ کے پاس واپس کیا آپﷺ کے لیے ان کے ہاتھ بطور ہدیہ ایک جوڑا کپڑا اور زین سمیت ایک خچر اور دو باندیاں پیش خدمت کیں جن میں سے ایک آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی ماں ہوئیں جن کا نام ماریہ ؓ تھا اور دوسری باندی حضورﷺ نے محمد بن قیس عبدی کو ہبہ کردی۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ فرماتے ہیں مجھے رسول اللهﷺ نے مقوقس شاہ اسکندریہ کے پاس نامہ گرامی دے کر بھیجا۔ مقوقس نے مجھے اپنے محل میں اپنے پاس ٹھہرایا اس نے اپنے تمام پادریوں کو جمع کیا اور مجھے بلا کر کہا میں تم سے کچھ باتیں پوچھوں گا، تم ذرا سمجھ کر جواب دنیا میں نے کہا پوچھئے اس نے کہا تم اپنے حضرت سے مجھے مطلع کر دکیا وہ نب ینہیں ہیں میں نے کہا وہ بلاشبہ الله کے رسول ہیں اس نے کہا کہ جب وہ اس اونچے پائے کے تھے تو انہیں یہ کیا سوجھی کہ جب قوم نے انہیں وطن سے نکال باہر کردیا قوم کے لیے بد دعا کیوں نہ کی؟
میں نے کہا کیا حضرت عیسیٰؑ بن مریم ؑکے بارے میں تم لوگ الله کے رسول ہونے کی شہادت نہیں دیتے ہو اس نے کہا بیشک وہ الله کے رسول ہیں میں نے کہا جب قوم نے انہیں پکڑا اور ان کو سولی دینے کاارادہ کیا تو انہیں یہ کیا سوجھی کہ قوم پر بد دعا کیوں نہیں کی؟ کہ الله ان سب کو تباہ و برباد کردیتا اور ان کو الله نے آسمان دنیا پر اٹھالیا۔ حضرت حاطب ؓ کہتے ہیں اس نے مجھ سے کہا کہ تم نہایت ہی دانا اور عقل مند کے پاس سے آئے ہو یہ ھدیے میں تمہارے ساتھ بھیج رہا حضرت محمدﷺکے لیے اور تمہارے ساتھ پہرے دار بھیج دوں گا، جو تمہاری وہیں تک پہرہ داری کریں گے رسول اللهﷺکے پاس تین باندیاں جن میں سے ایک ابراہیم بن رسول الله ﷺکی والدہ مبارکہ ہوئیں اور ایک باندی آپ نے حسان بن ثابت کو اور تیسری محمد بن قیس عبدی کو ہبہ کردی اورکئی ایک نایاب چیزیں اپنے یہاں کی چیزوں میں سے آپ کی خدمت میں بھیجیں۔
مکتوبِ گرامیﷺ بنام اہل نجران (عیسائیوں سے مکالمہ کی ایک اہم اساس)
حضرت یونسؓ جو شروع میں نصرانی تھے بعد میں اسلام لے آئے فرماتے ہیں، جناب رسول اللهﷺنے اہل نجران کو سورہ طس اترنے سے قبل ہی نامہ گرامی اس مضمون کا ارسال فرمایا:حضرت ابراہیم ؑ و حضرت اسحق ؑ وحضرت یعقوبؑ کے پروردگار کے نام سے شروع کرتا ہوں محمدﷺکی جانب سے جو الله کے نبی اور اس کے رسو ل ہیں، نجران کے پادری اور تمام ساکنین نجران کے نام، تم لوگ صلح پسند ہو میں تمہارے سامنے حضرت ابراہیمؑ و حضرات اسحق ؑو حضرت یعقوبؑ کے خدا کی تعریف کرتا ہوں امابعد، میں تم لوگوں کو بندوں کی عبادت سے ہٹاکر الله کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور نبدوں کی دوستی سے ہٹا کر الله کی دوستی کی دعوت دیتا ہوں اگرتم اس بات سے انکا رکو تو جزیہ دو اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو میں نے تم کو لڑائی کا چیلنج دیا ہے۔ والسلام
مکتوب گرامی نجران کے پادریوں کے نام
نجران کے پادریوں کے لیے آپﷺنے ایک تحریر لکھ کردی:الله کے نبی محمدﷺکی طرف سے ابو الحارث پادری، و دیگر پادریوں اور راہبوں اور کاہنوں کو اور ہر وہ چیز جو ان کے قبضہ میں ہے تھوڑی یا بہت الله اور اس کے رسول کی پناہ دی گئی کسی پادری اور کسی راہب اور کسی کاہن کو ان کے منصب سے نہ ہٹایا جائے گا اور ان کے حقوق اور ان کے اقتدار اور کسی چیز میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی ان کے لیے الله اور الله کے رسول کی پناہ اس وقت تک جب تک کہ یہ صحیح اور صالح طرز پر رہیں گے نہ تو کسی کے ساتھ ظلم کریں اور نہ ظالم کا ساتھ دیں، یہ تحریر آپﷺنے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے لکھوائی
مکتوبِ گرامی ﷺ بنام بکر بن وائل
مرثد بن طبیان ؓ فرماتے ہیں ہم لوگوں کے پاس جناب رسول اللهﷺکا نامہ گرامی پہنچا ہمیں کوئی ایسا پڑھنے والا نہ ملا جسے پڑھ کر ہم لوگوں کو سناتا، بالآخر قبیلہ ضبیعہ کے ایک آدمی سے پڑھوایا، حضورﷺ کا یہ گرامی نامہ بکر بن وائل کے نام تھا، آپ نے تحریر فرمایا تھا۔”تم لوگ اسلام لے آوٴ محفوظ رہو گے۔
مکتوبِ گرامیﷺ بنام بنی جذامہ
عمیر جذامی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رفاعہ جذامی جناب رسول اللهﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کو بھی یہ گرامی نامہ تحریر فرما کر دیا:
”محمد رسول اللهﷺکی طرف سے رفاعہ بن زید کے لیے، میں ان کو ان کی قوم کے پاس اور جو لوگ بھی ان میں داخل ہیں ان کے پاس بھیج رہا ہوں، تاکہ یہ لوگوں کو الله اور اس کے رسو ل کی طرف بلائیں جولوگ ایمان لے آئیں گے وہ الله اور اس کے رسول کی جماعت میں شمار ہوں گے اور جو انکار کرے گا اس کے لیے صرف دوماہ کی مہلت ہے جب یہ اپنی قوم کے پاس آئے لوگوں نے ان کا کہا مان لیا۔
ان سرگرمیوں سے اندازہ ہوگا کہ آپﷺ اپنے معاصر سلاطین کو کس طرح اسلام کی طرف مائل کرنا چاھتے تھے ۔ آپ ﷺجب سفراء کو کہیں بھیجتے تو نرمی، اخلاق حسنہ اور رواداری کی تلقین فرماتے ۔ان کے اسی اعلی اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

