رسول پاک ﷺ کا مدنی دور میں غیر مسلم وفود سے ملاقاتیں

Prophet Mohammad PBUH

مدنی دور میں غیر مسلم وفود سے مکالمات

مدنی دور کا آغاز معاہدات، غزوات اور سرایات سے ہوتا ہے، مدنی دور کے آغاز میں وفود کی آمد بہت کم ہے لیکن سن آٹھ ہجری کے اواخر اور سن نو ہجری اور سن دس ہجری سارے کا سارے وفود کی آمد اور ان کے ساتھ گفتگو سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے۔

سن نو ہجری میں جو وفد آیا اس میں وہ سردار بھی موجود تھے جنہوں نے آپﷺکو زخمی کردیا تھا اور حضرت فاطمہؓ فرماتی ہیں کہ خون سے آپﷺ کا جوتا مبارک پاوٴں سے اس قدر جم گیا تھا کہ بڑی مشکل سے میں نے وہ جوتا آپ کے پاوٴں سے جدا کیا، اور اس وفد میں وہ لوگ بھی موجود تھے کہ فتح مکہ کے بعد جب مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا تو انہوں نے سازش کے ذریعے مسلمانوں کو بڑا سخت نقصان پہنچایا اور وہ سازش یہ کی کہ جب مسلمان طائف میں داخل ہوئے تو طائف کے لوگوں نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا، کوئی ان سے تعرض نہیں کیا، مسلمان بڑے اطمینان کے ساتھ طائف کے اندر داخل ہوگئے اور طائف ایک پہاڑی علاقہ ہے اور یہ پہاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے اور منصوبہ یہ تھا کہ جب تک پورا قافلہ اندر نہیں آجاتا اس وقت تک ہم کوئی حرکت نہیں کریں گے اور یہ قافلہ بہت بڑا تھا جب یہ سارے کا سارا قافلہ اندر آ گیا تو چاروں طرف سے گھیر کر مسلمانوں کو مارا گیا، وہ لوگ بھی اس میں موجود تھے۔ تو اس وقت صحابہؓ نے عرض کی کہ آپ ان کے لیے بد دعا فرمائیں تو اس وقت بھی آپﷺ کی زبان مبارک سے بد دعا کی بجائے یہ الفاظ مبارک نکلے (اللہم اہدی ثقیفاً وأت بہم مسلمین) کہ اے الله ثقیف کے لوگوں کو ہدایت عطا فرما اور انہیں مسلمان بنا کر میرے پاس لا، الله تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی یہ دعا قبول فرمائی، واقعتا ثقیف کے وہ لوگ ہدایت یافتہ بھی ہوئے او راز خود مسلمان ہونے کے لیے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس میں عبد علیل بھی تھا جس نے طائف کے اوباش نوجوانوں کو آپ ؐکے پیچھے لگایا تھا۔

دوسرا بڑا وفد بنو حنیفہ کا ہے۔ یہ ایک مالدار قبیلہ تھا جس کے سردار ثمامہ بن اثال تھے ، یہ بڑے مغرور اور متکبر قسم کے لوگ تھے، اسی بنی حنیفہ کے اند رمسیلمہ کذاب بھی موجود تھاجس نے دعویٰ نبوت کیا تھا۔ یہ لوگ بھی مدینہ منورہ تشریف لائے، لیکن اپنے غرور اور تکبر کی وجہ سے خود نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے، نبی کریمﷺکو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ کوئی حرج کی بات نہیں، میں ان کی قیام گاہ پر چلا جاتا ہوں اور نبی کریمﷺبذات خود ان کی قیام گاہ پر تشریف لے کر گئے۔وہاں مسیلمہ کذاب نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ ہم اسلام لانے کے لیے تیار ہیں لیکن ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آپ ابھی اعلان کردیجئے کہ آپ کے بعد میں آپ کا جانشین ہوں گا، میں آپ کا خلیفہ ہوں گا اور نبوت اور رسالت کا جو کام آپ کر رہے ہیں وہ میں کروں گا، یہ کام کردیجئے تو پھر ٹھیک ہے،مجھے ولی عہد بنا دیجئے میں آپ کا دین قبول کرنے کے لیے تیار ہوں، آپﷺ نے انکار فرمادیا اور آپﷺ اٹھ کر واپس چلے آئے اور مزید کوئی ان سے آپﷺ کی گفتگو نہیں ہوئی

تیسرا وفد نصاریٰ نجران کاہے یہ وفد اپنی کمیت کے اعتبار سے بھی بہت بڑا تھا اور کیفیت کے اعتبار سے بھی بہت بڑا تھا اور اپنی گفتگو کے اعتبار سے بھی بہت بڑا تھا، کمیت کے اعتبار سے تو اس طرح کہ اس میں ساٹھ افراد شامل تھے جو نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، کیفیت کے اعتبار سے اس کی بڑائی یہ تھی کہ اس میں چودہ افراد وہ تھے جو نصاریٰ نجران کے سردار اور ان کے ائمہ قسم کے لوگ تھے اور گفتگو کے اعتبار سے اس طرح بڑا تھا کہ اس میں نبی کریمﷺ نے بڑی طویل گفتگو فرمائی

 

 

Sohaib Aslam ج