رسول ﷺ کا غیر مسلموں سے معاملات

Husn-e-Salook

 

غیر مسلم کی جان کی حفاظت

ابن عمر فرماتے ہیں حضورﷺ نے ایک ذمی کی وہی دیت ادا کی جو مسلمان کی دیت ہوتی ہے انسانی جان کی عظمت اور حرمت کے پیش نظر اسلام میں غیر مسلم شہری کی جان کو وہی احترام او رعزت حاصل ہے جو کسی مسلمان کی جان کو ہوسکتی ہے دونوں میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔

جس نے کسی شخص (غیر مسلم شہری جو اسلامی ریاست کا باشندہ ہو) کو قتل کردیا وہ شخص جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس ہوگی

غیر مسلم کے مال کی حفاظت

جنگ خیبر کے موقع پر جب یہود سے معاہدہ ہوچکا تو انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے شکایت کی کہ مسلمان ہمارے پھلوں اور غلوں پر ٹوٹ پڑے ہیں حالانکہ یہ چیزیں محفوظ مقام پر رکھی ہوئی تھیں۔ آپ نے فوراً ہدایت فرمائی۔

﴿لا لایحل اموال المعاہدین الا بحقہا﴾

’’آگاہ ہو جاوٴ معاہدین (غیر مسلم) کے اموال قطعاً حلال نہیں ہیں سوائے اس کے کہ اسے لینے کا حق (ریاست کی طرف سے) ہو

جانی دشمن سے عفو و درگزر

جانی دشمنوں اور قاتلانہ حملہ آوروں سے عفوو درگزر کا واقعہ پیغمبروں کے صحیفہٴ اخلاق کے سوا اور کہاں مل سکتا ہے جس شب کو آپﷺ نے ہجرت فرمائی ہے کفار قریش کے نزدیک یہ طے شدہ تھا کہ صبح کو محمدﷺ کا سر قلم کردیا جائے، اس لیے دشمنوں کا ایک دستہ رات بھر خانہ نبویﷺ کا محاصرہ کئے کھڑا رہا۔

اگرچہ اس وقت دشمنوں سے انتقام لینے کی آپﷺ میں ظاہری قوت نہ تھی، لیکن ایک وقت آیا جب ان میں سے ایک ایک کی گردن اسلام کی تلوار کے نیچے تھی اور اس کی جان صرف آنحضرتﷺ کے رحم و کرم پر موقو ف تھی لیکن ہر شخص کو معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی شخص اس جرم میں کبھی مقتول نہیں ہوا۔

جانی دشمن کے لئے سند امان لکھنا

ہجرت کے دن قریش نے آنحضرتﷺ کے سر کی قیمت مقرر کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ جو محمد ﷺ کا سر لائے گا یا زندہ گرفتار کرے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دئیے جائیں گے۔ سراقہ بن جعشم پہلے شخص تھے جو اس نیت سے اپنے صبا رفتار گھوڑے پر سوار ہاتھ میں نیزہ لیے ہوئے آپﷺ کے قریب پہنچے، آخر دو تین دفعہ کرشمہ اعجاز دیکھ کر اپنی نیت بد سے توبہ کی اور خواہش کی مجھ کو سند امان لکھ دی جائے، چنانچہ سند امان لکھ کر ان کو دی گئی، اس کے آٹھ برس کے بعد فتح مکہ کے موقع پر حلقہٴ اسلام میں داخل ہوئے اور اس جرم کے متعلق ایک حرف سوال بھی درمیان میں نہیں آیا۔

جانی دشمن کو اپنے قریب بٹھانا

عمیر بن وہب آنحضرتﷺ کا سخت دشمن تھا، مقتولین بدر کے انتقام کے لیے جب سارا قریش بیتاب تھا تو صفوان بن امیہ نے اس کو بیش قرار انعام کے وعدہ پر مدینہ بھیجا تھا کہ وہ چپکے سے جاکر نعوذ بالله آنحضرتﷺ کا کام تمام کردے، عمیر اپنی تلوار زہر میں بجھا کر مدینہ آیا، لیکن وہاں پہنچنے کے ساتھ اس کے تیور دیکھ کر لوگوں نے پہچان لیا، حضرت عمر ؓ نے اس کے ساتھ سختی کرنی چاہی، لیکن آپ ؐنے اس سے منع فرمایا اور اپنے قریب بٹھا کر اس سے باتیں کیں اور اصلی راز ظاہر کردیا، یہ سن کر وہ سناٹے میں آ گیا، لیکن آپؐ نے اس سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ یہ دیکھ کر وہ اسلام لایا اور مکہ میں جاکر دعوت اسلام پھیلائی۔ یہ واقعہ ۳ھء کا ہے

جانی دشمن پر غلبہ پاکر معاف کردینا

ایک دفعہ آپﷺ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے، راہ میں ایک میدان آیا، دھوپ تیز تھی، لوگوں نے درختوں کے نیچے بستر لگادئیے۔ آنحضرتﷺ نے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا۔ تلوار درخت کی شاخ سے لٹکا دی، کفار موقع کے منتظر رہتے تھے، لوگوں کو غافل دیکھ کرایک طرف سے ایک بدو نے آ کر بے خبری میں تلوار اتارلی، دفعةً آپﷺ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص سرہانے کھڑا ہے اور ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں ہے، آپﷺ کو بیدار دیکھ کر بولا ”کیوں محمد! اب بتاوٴ تم کو اس وقت مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟“ آپ ﷺ نے فرمایا ”الله“ یہ پر اثر آواز سن کر اس نے تلوار نیام میں کرلی، اتنے میں صحابہ آگئے۔ آپ ﷺ نے ان سے واقعہ دہرایا اور بدو سے کسی قسم کا تعرض نہیں فرمایا۔

ایک دفعہ ایک اور شخص نے آپﷺ کا قتل کا ارادہ کیا، صحابہ اس کو گرفتار کرکے آنحضرتﷺ کے سامنے لائے، وہ آپﷺ کو دیکھ کر ڈر گیا، آپﷺ نے اس کو مخاطب کرکے فرمایا ”ڈرو نہیں، اگر تم مجھے قتل کرنا

چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں ایک دفعہ اسّی آدمیوں کا ایک دستہ منہ اندھیرے جبل تنعیم سے اتر کر آیا اور چھپ کر آنحضرت ﷺکو قتل کرنا چاہا، اتفاق سے وہ لوگ گرفتار ہوگئے، لیکن آنحضرتﷺ نے ان کو چھوڑ دیا اور کچھ تعرض نہیں کیا۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی ہے

وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیٴدِیَہِمْ عَنَّکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ

اسی خدا نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک لے

 

Sohaib Aslam ج