خیبرکے یہودیوں پر مخالف سمت سے یلغار
Ghazva-e-Khybar
خیبر کے غدار یہودی غزوہ احزاب میں کفار مکہ اور متحدہ عرب کو بھڑکا کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے ۔غزوۂ بنو قریظہ کے بعد تو ان کی اسلام دشمنی مزید تیزہو گئی۔ انتقامی جذبہ میں وہ آئے دن مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے تھے۔ ان سب منصوبوں کے تانے بانے خیبر میں بنُے جا رہے تھے۔ ان سازشیوں کو کچلنے کے لئے ۷ ھجری میں آپﷺ خیبر کی طرف نکلے۔
مکہ والوں سے دس سالہ امن و صلح کا معاہدہ کرنے کے بعد آپﷺ کو یہ اطمینان تھا کہ شمالی علاقہ جات کے یہودیوں کی طرف رُخ کیا جائے تو مکہ والے ان کی مدد کو نہیں آئیں گے۔ اس اطمینان کے باوجود بھی یہ بہت پُرخطر مہم تھی گویا لشکر اسلام کے لئے ہرسو خطرات ہی خطرات تھے۔
اوّل یہ کہ خیبر تک پہنچنے کے لئے ۲۰۰ کلومیٹر کا راستہ جس میں بت پرست قبائل کی طرف سے جگہ جگہ حملے اور شبِ خون کا خطرہ تھا۔
دوم یہ کہ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا۔ اُن کی اکثریت یہاں کے مضبوط قلعوں میں رہتی تھی۔ انہیں خوب اندازہ تھا کہ مسلمان ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔ لہٰذا وہ ہر طرح سے مسلّح اور جنگ کے لئے تیار تھے۔
تیسری سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ بت پرست، اَن پڑھ اور دیہاتی جنگجوؤں کا قبیلہ غطفان مسلمانوں کا شدید مخالف اور یہودیوں کے بہت قریب تھا۔ غطفانی نجد کے بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ وادی قریٰ ،جبال طے میں بھی ان کی آبادیاں تھیں۔
خیبر کے یہودیوں سے ان کے خوب مراسم تھے۔ آپﷺ کی خیبر کی طرف پیش قدمی کے ایّام میں بھی ان کے مذاکرات چل رہے تھے۔ چنانچہ آپﷺ ان سب خطرات سے نمٹنے کے لئے مندرجہ ذیل حکمت عملیوں کو سوچتے ہوئے خیبر روانہ ہوئے۔
آپﷺ اور اصحابؓ کی غیرموجودگی میں نجد کے جنگجو فائدہ اُٹھا کر حملہ آور ہو سکتے تھے اِس لئے مدینہ منورہ کو محفوظ رکھنے کیلئے آپﷺ نے ابان بن سعید ؓ کی قیادت میں چند اصحاب ؓ کو (جنگجوؤں کو الجھانے کیلئے) نجد کے علاقہ کی طرف بھیجا۔
راستے کی دیکھ بھال کے لئے آپﷺ نے نوجوانوں کا انٹیلی جنس کا ایک دستہ تیارکیا اس حفاظتی دستے کا کام راستہ کلیئر کرنا تھا۔ اس دستہ کی قیادت عباد بن بشر انصاری ؓ کر رہے تھے۔ یہ نوجوان پھرتی کے ساتھ جیش اسلامی سے پہلے پہلے چلتے دائیں بائیں کی کمین گاہوں، جاسوسوں اور پہاڑی دروں کی چھان بین کرتے۔ یہ راستہ فائنل کرتے تو لشکرِ اسلام آگے پیش قدمی کرتا۔
راستے کی راہبری کے لئے آپﷺ نے قبیلہ اشجع کے حسیل بن خارجہ اور عبد اللہ بن نعیمؓ کی خدمات لیں جو نجد کے ان علاقوں سے خوب واقف تھے ۔
خیبر سے پہلے صہباء پہاڑ کے دامن میں آپﷺ پہنچے آرام فرمایا۔ رات کے وقت راستہ بتانے والوں سے فرمایا ہمارے آگے آگے چلو اور ہمیں خیبر تک پہنچاؤ، مدینہ منورہ والی سمت سے نہیں بلکہ شام کی سمت سے۔ اس انداز سے پہنچاؤ کہ خیبر اور ان کے حلفاء غطفان کے درمیان ہم پڑاؤ ڈالیں۔ راہبر آپﷺ کو وادی رجیع میں لے گئے۔ جس کا محل وقوع خیبر سے شمال کی طرف ہے۔
رجیع کو جہادی کیمپ بنایا
رجیع کو آپﷺ نے اپنا جہادی کیمپ بنایا۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ کافی اہمیت کی حامل تھی
آپﷺ خیبر کے یہودی اور قبیلہ غطفان کی آبادیوں کے درمیان حائل ہوگئے اورغطفانیوں کی طرف سے متوقع امداد کا راستہ روک دیا۔
اس کیساتھ ساتھ شام کی طرف بھاگنے کا راستہ بھی بند کر دیا گیا۔
وادی القریٰ (العُلا ء) کے یہودیوں کی طرف سے بھی یہودخیبر کے ساتھ ہر طرح کا رابطہ منقطع ہوگیا۔
رجیع کی حیثیت لشکراسلام کی چھاؤنی کی ہوگئی کیونکہ یہود خیبر نے اپنے قلعوں میں پناہ لی ہوئی تھی۔ کسی کھلے میدان میں جنگ کا امکان نہ تھا۔ یہیں سے آپﷺ خیبر کی طرف قتال کے لئے نکلتے رات کے وقت مسلمان فوجی اسی کیمپ میں آ کر ٹھہرتے۔
جنگ میں زخمی مجاہدین کوعلاج معالجہ کے لئے یہیں لایا جاتا۔ خیمے اور باربرداری کا سامان اور خواتین کو بھی اسی کیمپ میں ٹھہرایا گیا۔ اس کیمپ کے نگران عثمان بن عفان ؓ تھے، صحابہ ؓ باری باری رات کو پہرہ بھی دیتے، نماز کے لئے مسجد بھی تیار کی گئی۔
بعض روایات کے مطابق رجیع کو مستقر بنانے کا مشورہ حباب بن منذرؓ نے دیا جسے آپﷺ نے قبول فرمایا۔ آپﷺ نے نطاۃ کے قلعوں کے سامنے کھجوروں کے جھرمٹ میں خیمے نصب فرمائے۔ حباب نے مشورہ دیا کہ اِن قلعوں کے قریب کھجوروں کے جھرمٹ میں ہم نے قیام کیا ہے یہ نشیبی جگہ ہے یہاں سیم کے پانی کے تالاب بھی ہیں نطاۃ قلعہ کے مکین ماہر تیر انداز ہیں ہم اُن کے تیروں کی زد میں رہیں گے نیز وہ درختوں کا فائدہ اُٹھا کر ہم پربآسانی شب خون بھی مارسکتے ہیں اس لئے کسی کھلے میدان میں قیام کرنا چاہئے جہاں اس طرح کے تمام خطرات سے ہم محفوظ رہیں۔
آپﷺ نے اس مشورہ سے اتفاق کرتے ہوئے محمد بن مسلمہ ؓ سے فرمایا کسی اور جگہ کا انتخاب کریں اُنہوں نے چکر لگا کر وادی رجیع کو منتخب کیا۔ آپﷺ نے پھر اس نئی قیام گاہ میں منتقل ہونے کا حکم دیا۔
خیبر میں یہودیوں کے متعدد قلعے تھے۔ آپﷺ نے سوچا کہ اگر ہم ایک ہی قلعہ پر حملہ کریں گے تو دوسرے قلعوں والے یہودی بھی سب اکٹھے ہو کر مقابلہ پر نکل آئیں گے۔ اس لئے یہ حکمت عملی اپنائی کہ مختلف صحابہ ؓ کے چھوٹے چھوٹے دستے ترتیب دئیے اور ان کو مختلف قلعوں کے لئے مخصوص کردیا مقصد یہ تھا یہودی قوت منتشر رہے اور ہر قلعہ والے اپنے دفاع میں الجھے رہیں۔ لشکر اسلام کا باقی بڑا حصہ اپنی بھر پور طاقت ایک قلعہ پر مرکوز کئے ہوئے اس پر حملہ آور ہو۔ اس حکمت عملی سے ترتیب وار قلعے فتح ہوتے رہے ۔
رات کے وقت گشت اور پہرہ کے لئے بھی آپﷺ نے ایک دستہ تیار کیا جو مسلمانوں کے لئے پہرہ بھی دیتا اور دشمنوں کے قلعوں کے ارد گرد گشت کرکے ان کی حرکات کا جائزہ بھی لیا اور خیبر کے قلعوں میں سب سے پہلے قلعہ ناعمہ پر آپ آپﷺ نے حملہ کیا۔
ڈاکٹر عبد الرحمن الطیب الانصاری کے بیان کردہ نقشہ کے مطابق جغرافیائی اعتبار سے یہ قلعہ وادی رجیع کے قریب اور مقابل تھا۔ یہ قلعہ بہت سخت تھا، تقریباً پندرہ دن بھر اس کا محاصرہ رہا۔ قلعہ کے اردگرد مسلسل لڑائی ہوتی رہی کافی جدوجہد کے بعد مسلمان قلعہ کے اندر داخل ہوئے اور اسے فتح کیا۔ اس قلعہ کی فتح کے بعد پھر باقی قلعوں کی فتح کی راہ بھی ہموار ہو گئی یہودی قوت کمزور پڑ گئی اوروہ ہتھیار ڈال کر صلح پر راضی ہوئے۔ یوں پورے خیبر پر مسلمانوں کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔

