میدان بدر میں آپ ﷺ کی جنگی حکمت عملی

Ghazva-e-Badar

جنگ بدر کیلئے آپ  نے مدینہ منورہ سے دُور بدر کے میدان میں جا کر کفار سے مقابلہ کیا آپ ﷺ کسی صورت نھیں چاھتے تھے کہ اھل مدینہ اس جنگی مشکل کو اپنے سر اٹھائیں لیکن یہ الگ بات ھے کہ بدر کے میدان میں بھی آُپ ﷺ کیساتھ جو 313 کی فوج تھی اسکا 90 فیصدی حصہ مدینہ کے باسیوں پر مشتمل تھا اور کچھ ساتھی ایسے بھی مقرر فرمائے جن کی ذمہ داری صرف مدینہ شہر کی حفاطت تھی

 

بدر کے میدان میں پہنچنے کیلئے آپ ﷺ نے نہایت راز داری سے کام لیا کیونکہ اس جنگ میں آپ کو اھل قریش کیساتھ ساتھ اھل یہود کا بھی سامنا تھا جو کسی طور بھی آپ ﷺ سے راضی نہ تھے آپ نے اُونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں اتارنے کا حکم دیا تا کہ اونٹوں کی گھنٹی کی آواز سے دشمن کو اسلامی فوج کی نقل وحرکت کا پتہ چل نہ چل سکے ۔ 

 

بدر کے میدان میں جانے کیلئے آپ ﷺ نے معروف راستہ اپنانے کی بجائے غیر معروف رساستے سے جانا زیادہ بہتر اور محفوظ سمجھا اور وادی ذفران سے آگے جا کر آپ نے بائیں جانب سفر کیا ۔ یہ راستہ "الصفر"یا" اصافر" پہاڑ سے ہوتا ہوا بدر کی طرف نکلتا ہے ۔ یہ راستہ نہایت مشکل غیر معروف اور سخت جان مسافروں کیلئے ھی بنا تھا

 

ذفران سے ایک مشکل راستہ بائیں طرف بدر کو نکلتا ہے۔ اسی راستے سے ہوتے ہوئے رسول اللہغزوہ بدرکی طرف روانہ ہوئے تھے۔ ایک اور راستہ بھی تھا لیکن وہ مدینہ منورہ سے ھوتا ھوا بدر کی طرف جاتا تھا مگر رسول اللہ اس راستے سے ہوتے ھوئے میدان بدر میں داخل نھیں ھوئے بلکہ بدر کے دائیں جانب حنان نامی پہاڑ نما تودے کو دائیں جانب چھوڑ کر میدان بدر میں داخل ہوئے۔

غزوۂ بدرکے موقع پر آپمیدانِ بدر پہنچے تو بدر کے قریب ترین چشمے پر قیام فرمایا مگر حباب بن منذر ؓ کے مشورہ پرجو چشمہ قریشی سمت کے سب سے قریب پڑتا تھا وہاں جا کر پڑاؤ ڈالا جس کی بنیادی وجوھات تھیں ایک تو یہ چشمہ قریش کے پاس پڑتا تھا اور آپ ﷺ کے وھاں پڑاؤ ڈالنے سے لشکر قریش کو کسی قریب ترین آبی جگہ پر پڑاؤ نہ ملے اور دوسری وجہ اپنے ساتھیوں کیلئے وافر ، محفوظ اور میٹھے پانی کا چشمہ مہیا کرنا تھا۔

 

آپ نے سب ساتھیوں کو ایک مثلث شکل میں صف بندی کا حکم دیا تا کہ دشمن عقب سے بھی حملہ نہ کرسکے۔

 

آپنے قریش کے لشکر کی آمد کے بعد شب کی تاریکی میں جب دیکھا کہ سب سو گئے ھیں تو آپ ﷺ نے اپنے لشکر کی نہ صرف جگہ تبدیل کردی بلکہ مکمل ترتیب بھی تبدیل فرما دی جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھوا کہ اگلے دن کب اھل قریش جنگ کیلئے اٹھے تو انھوں نے سمجھا کہ آپ ﷺ میدان جنگ سے بھاگ گئے ھیں لیکن انھیں بہت دیر کے بعد یہ ادراک ھوا کہ آپ ﷺ نے اپنی جنگی حکمت عملی تبدیل کر دی ھے۔

 

آپنے میدان کے بالائی حصہ میں جہاں سے پورا میدان نظر آتا تھا اپنا خیمہ نصب کیا تا کہ پورے میدان کا نقشہ سامنے رہے اور مناسب اقدامات کئے جائیں۔ صحابہ اکرامؓ تک پیغام پہنچانے میں بھی آسانی ہو۔

آپﷺ نے دشمن کو نشیبی جگہ میں جہاں زمین مٹی کی تھی خیمہ زن ہونے پر مجبور کیا مسلمانوں کا پڑاؤ بالائی حصہ میں تھا، جو ریتلا علاقہ تھا مگر پکا تھا۔ اللہ کی قدرت کہ بارش ہوئی تو مشرکوں کے علاقہ میں پانی جمع ہوا اوران کا علاقہ دلدل بن گیا۔ پانی کیچڑ کی وجہ سے ان کے گھڑ سوار دستے کی پیش قدمی غیر مؤثر ہو کر رہ گئی اور مسلمانوں کے علاقہ میں بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین سخت ہو گئی جس کا مسلمانوں کو بہت فائدہ ھوا اور  نقل و حرکت میں بھی آسانی رہی۔

 

صحابہ ؓ نے رات بھی آرام و سکون کی نیند میں گزاری۔ صبح کے وقت تازہ دم تھے، اس کے برخلاف کفار کے علاقہ میں رات بھربے اطمینانی و بے چینی رھی صبح یہ بہت بے سکون، تھکے ہوئے اور سست تھے چنانچہ زیادہ دیر تک اپنے 10 ھزار کے بڑے لشکر کیساتھ ھوتے ھوئے بھئ جم کر مقابلہ نہ کرسکے۔ یہی وہ مقام تھا جھاں رسول ﷺ نے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اللہ سے دعا کی تھی کی تھی کہ " اے اللہ آج تیرے نام لیوا حق گو اور تیرے نام کے دشمنوں کا آپسی مققبلہ ھے یہ 313 کے مجاحد اگر آج شکست پا ھو گئے تو کل کو کوئی بھی تیرا نام لیوا نہ ھو گا۔۔۔

 

اور یہی وہ مقام مقدسہ ھے جھاں اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی پاک حضرت مھمد ﷺ کی فرشتوں سے مدد فرمائی جس پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ۔۔۔۔۔۔

 

فضائے  بدر پیدا  کر  فرشتے  تیری  نصرت  کو

اتر سکتے ھیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Sohaib Aslam ج